"NNC" (space) message & send to 7575

اُدھر تم اِدھر ہم

ایوب خان کی کابینہ کے وزیر‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ استعفیٰ دے کر اسلام آباد سے حیدر آباد کے لئے ٹرین میں سوار ہوئے۔ یہ بھٹو صاحب کی سیاسی زندگی کا پہلا سفر تھا۔ لاہور ریلوے سٹیشن پر‘ بھٹو صاحب کا حیرت انگیز استقبال ہوا۔ پہلے نہ کبھی بعد میں‘ لاہور ریلوے سٹیشن نے‘ اتنا بڑا ہجوم نہیں دیکھا۔ بھٹو صاحب‘ ایوب خان کی کابینہ میں ایک رکن کی حیثیت سے سامنے آئے اور بطور وزیر خارجہ‘ عوام نے ان کی حیرت انگیز صلاحیتیں دیکھیں۔ ان کے وطن پرستانہ جذبے کا پر جوش اظہار ہوا۔ بھٹو صاحب کی پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ایک اہم ملک کے وزیر برائے قدرتی وسائل‘ سے ڈنر میں ملاقات ہوئی۔ اس وقت پاکستان‘ امریکہ کے حواریوں میں شامل تھا۔ وزیروں اور افسروں سمیت ہر بااختیار شخص‘ بیرونی ملکوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں رہتا۔ یہ سودے فوراً ہوتے‘ جیسے آج کل ہو رہے ہیں۔ ایوب خان کی غیر سیاسی شخصیت ڈپلومیسی سے بالکل ناواقف تھی۔ بھٹو صاحب کی طلسمی شخصیت میں ایسی کشش تھی کہ دنیا کے ذہین ترین افراد بھی ان کی مسحور کن شخصیت سے‘ ابتدائی جملوں میں ہی متاثر ہو جاتے۔ جس مہمان وزیر کا میں نے ابتدائی سطو ر میں ذکر کیا‘ وہ تیل کی دولت سے مالا مال ایک ملک کا وزیر برائے قدرتی وسائل تھا۔ مہمان وزیر اپنی ملکی دولت کے نشے میں سرشار تھا۔ وہ جس ملک میں بھی جاتا‘ اپنے میزبانوں کو کھلے دل سے نوازنے کی شہرت رکھتا تھا اور اپنے ملک کی انتہائی امیر وزارت‘ کے تمام شعبوں کا مالک و مختار تھا۔ مذکورہ تقریب میں اس وقت کے پاکستانی سرمایہ داروں کی تعداد بہت ہی کم تھی۔ وزیر موصوف کا بھٹوصاحب سے سامنا ہوا تو اس نے پہلا جملہ ہی یہ کہا ''سمارٹ آدمی! بتائو میں تمہیں کیا دے سکتا ہوں؟‘‘ بھٹوصاحب نے جواب دیا ''مسٹر منسٹر! میں شاید آپ کو اس سے بہتر پیشکش کر سکتا ہوں‘‘۔ اور اسے نظر انداز کرتے ہوئے‘ تقریب کے دوسرے مہمانوں کی طرف متوجہ ہو گئے۔ مجھے اس مہمان وزیر کے ملک کا نام یاد نہیں مگر یہ واقعہ کراچی کی اعلیٰ درجے کی محفلوں میں ایک عرصے تک دہرایا جاتا رہا۔
بھٹوصاحب کا حافظہ اور برجستگی غضب کی تھی۔ اب چند گنے چنے لوگ ہی رہ گئے ہیں جو بھٹوصاحب کے قریب تھے۔ طبقاتی اعتبار سے بھٹو صاحب کا خاندان‘ زمینداروں میں شمار ہوتا۔ برطانیہ کی اعلیٰ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے۔ فطری اعتبار سے انسان دوست اور وطن پرست تھے۔ یہی وطن پرستی انہیں ایک فوجی آمر کی کابینہ میں لے آئی۔ جے اے رحیم‘ بھٹو صاحب کے دورِ وزارت میں‘ فرانس میں پاکستان کے سفیر تھے۔ دونوں عالمی امور میں اعلیٰ درجے کی مہارتیں رکھتے تھے۔ جب بھٹو صاحب کے ذہن میں اپنی پارٹی بنانے کا خیال آیا تو سب سے پہلے‘ جے اے رحیم سے تبادلۂ خیال کیا۔ جس دوسرے شخص سے بات چیت ہوئی‘ وہ ڈاکٹر مبشر حسن تھے۔ تینوں ممتاز شخصیات‘ پارٹی بنانے کے سوال پر موقع بہ موقع‘ منصوبہ بندی کرتی رہیں۔
ان دنوں ایوب خان اور بھٹو صاحب میں جوسیاسی قربت تھی‘ دوریوں میں بدلنے لگی۔ یہی و ہ دن تھے جب تاشقند کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ سربراہی کانفرنس میں پاکستان کے صدر ایوب خان اور بھارت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری‘ دونوں سربراہوں کے قریبی مشیر شریک ہوئے۔ عالمی امور میں بھٹو صاحب کی کارکردگی ‘ کانفرنس کے سارے شرکا سے بہتر تھی۔ لیکن جس لائن پر ایوب خان بات کر رہے تھے‘ وہ بھٹو صاحب کے لئے ناپسندیدہ تھی۔ بھٹو صاحب نے کانفرنس کا ماحول دیکھ کر سمجھ لیا کہ ایوب خان‘ بھارتی وزیراعظم شاستری کے ساتھ‘ محض رسمی گفتگو کر نے لگے ہیں اور شاید دوسری یا تیسری نشست میں بھٹو صاحب نے کانفرنس میں باقاعدہ شرکت سے گریز کرنا شروع کر دیا۔
تاشقند میں صف اول کے پاکستانی اور بھارتی اخبار نویس آئے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے سارے صحافی ایسے مواقع پر آپس میں تبادلۂ خیال و معلومات کرتے رہتے ہیں۔ تاشقند سے خبریں آنے لگیں کہ بھٹو صاحب مذاکرات میں خاص دلچسپی نہیں لے رہے۔ اسلام آباد واپس آکر بھٹو صاحب نے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا اورایوب خان سے علیحدگی اختیار کر لی۔ ایوب خان کا جواب یوں آیا کہ انہوں نے بھٹو صاحب کو تکلیف پہنچانے کے لئے ریاستی بدسلوکی شروع کر دی۔ ان کی زمینوں کے معائنے ہونے لگے۔ مقدمے بننے لگے اور سب سے دلچسپ حکومتی فیصلہ یہ تھا کہ بھٹو صاحب پر ٹریکٹر چوری کرنے کا الزام بھی لگا دیا گیا۔ یہ کام مغربی پاکستان کے گورنر‘ جنرل موسیٰ خان کر رہے تھے۔ یاد رہے اس دور میں مغربی پاکستان کے سارے صوبوں کو‘ ون یونٹ بنا دیا گیا۔ گویا مشرقی پاکستانیوں کی اکثریت ختم کر کے‘ چھوٹے صوبے کو آبادی کے اعتبار سے برابر کر دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا فیصلہ اسی دن ہو گیا‘ جب مشرقی اور مغربی پاکستان کو دو یونٹوںمیں تقسیم کر کے‘ آبادی کے لحاظ سے مساوی کر دیا گیا۔ مغربی پاکستان کے وڈیروں اور جرنیلوں نے ون یونٹ پر زور دینا شروع کر دیا۔ مشرقی پاکستان اس تجویز کا پہلے سے حامی تھا۔ یہی وہ دن تھے جب میں نے لاہور کے فائیو سٹار ہوٹل میں بھٹو صاحب سے ملاقات کے دوران ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ ''دو یونٹ بنانے سے یکجہتی کو نقصان نہیں ہو جائے گا؟‘‘ بھٹو صاحب نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور 
بڑے دکھ سے کہا ''اب بات میرے ہاتھ سے نکل چکی ہے‘‘۔ یہ اس دن کی بات ہے جب بھٹو صاحب نے کراچی میں تقریر کی اور لاہور سے چھپنے والے ایک اخبار نے یہ سرخی نکالی ''اُدھر تم اِدھر ہم‘‘۔ اس سرخی کا بھٹو صاحب کی تقریر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مرحوم نثار عثمانی نے اس تقریر کا مسودہ پڑھ کر کہا ''بھئی اس کا مطلب ہوا کہ اُدھر تم اِدھر ہم‘‘۔ یہ روزنامہ''آزاد‘‘ کی سرخی تھی۔ یہ اخبار بائیں بازو کے چند صحافیوں نے مل کر نکالا تھا۔ خان عبدالولی خان ان کے سرپرست تھے۔ سارا بایا ں بازو بھٹو صاحب کے خلاف ہو گیا اور جب1970ء کے انتخابات ہوئے تو مغربی پاکستان میں واحد اکثریتی پارٹی‘ بھٹوصاحب کی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں