پاکستان کے عام انتخابات میں چند ماہ کا فاصلہ رہ گیا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ چند ابتدائی مراحل کے سوا ‘کوئی تیاری نہیں کی جا سکی۔یہ تیاری بھی نیم پختہ حالت میں ہے۔مثلاً ابھی تک حلقہ بندیاں نہیں کی جا سکیں۔ مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے مفاد کے لئے جیسی حلقہ بندیاں چاہتی ہیں‘ا ن کے لئے مزید ایک سال درکا ر ہو گا۔موجودہ حکمران پارٹی (ن) لیگ ہر قیمت پر فیصلہ کن کامیابی حاصل کرنے کی خواہش مند ہے۔ (ن) لیگ سابقہ حلقہ بندیوں سے مطمئن نہیں۔ اس نے اپنے دور حکمرانی میں حلقہ بندیاں کرائی تھیں۔ اس وقت انتظامی مشینری پر (ن) لیگ کا قبضہ تھا۔ یہ تجربات بھی دیکھنے میں آئے تھے کہ اگر ایک حلقے میں‘ کشمیریوں اور اس کے ساتھ والے دیہات میں جاٹوں کی اکثریت ہے ۔ساتھ دو چار مزید برادریاں بھی شامل ہو جائیں‘ تو مرضی کے نتائج حاصل کرنا دشوار ہو تا۔اب حکمران جماعت کی طاقت اتنی مستحکم نہیں‘ جیسے پہلے تھی۔ تب پنجاب میں خصوصاً حکمران خاندان کی گرفت بہت مضبوط تھی۔پنجاب میں جس طرح نگران وزیراعلیٰ کا انتخاب کیاگیا تھا‘ وزارت اعلیٰ کی چالبازیوں کا اسے دور کا علم نہیں تھا۔ وہ چھوٹی چھوٹی دائو بازی کر کے‘ تھوڑی بہت رقم اور معتبری سے مطمئن ہو جاتا تھا۔لیکن اقتدار کے کھیل سے وہ بہت دور تھا۔کھیل کی جو بساط بچھائی گئی ‘ اس کے سربراہ اپنے پورے انتظامی مہروں کے ساتھ‘ میاں نوازشریف تھے۔نجم سیٹھی کو وزیراعلیٰ کا شاندار دفتر دے کر‘ چڑیا کے ساتھ بٹھا دیا گیا۔ پورے صوبے کے صوبائی اور وفاقی حلقوں میں کہاں پر‘ کون سا مہرہ رکھنا ہے ؟ اس کی نقشہ بندی‘ نوازشریف کرتے اور عمل درآمد شہباز شریف کرواتے۔
بعد میں جب انہیں کرکٹ کے کھیل کا نظم و نسق چلانے کی ذمہ داری دی گئی تو موصوف کو چکر آگئے۔ کھلاڑی‘ چودھری اور دیگر انتظامی اسامیوں پر کام کرنے والوں کے مابین‘ ایسے ایسے دائو گھات چلتے تھے کہ موصوف کو چھوٹے چھوٹے کھلاڑی بھی غچہ دے جاتے۔انہوں نے کافی مغز خوری کر کے یہ سیکھاکہ کرکٹ کی شطرنج کے ایک دوکھلاڑیوں کو اپنا مشیر بنا لیا جائے۔ وہ انہیں پوچھ کر بازی تیار کر کے دیتے اور موصوف سرکاری نمائندے کی حیثیت میں احکامات جاری کرتے۔لیکن کرکٹ میں موصوف کی مہارت کا یہ عالم ہے کہ کرکٹ کے دو بڑے سیٹھ جب آمنے سامنے آئے تو وہ اپنے پہلے سیٹھ کے لئے بھی ٹیم ترتیب نہ دے سکا اور جس سیٹھ کے ہاں وہ چڑیا اڑایا کرتا تھا‘ اس سیٹھ کے لئے بھی نئے سیٹھ کا مقابلہ نہ کر پایا۔آج وہ جہاں بھی ہے‘ پنجوں کے بل ہے۔پورا پائوں کہیں نہیں رکھ پایا۔ جہاں تک محفل بازی کا سوال ہے‘ موصوف اس کی بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ کبھی اپنی محفل جما لیتے ہیں۔کبھی جمی جمائی محفلوں میں جا دھمکتے ہیں۔
مجھے اندیشہ تھا کہ آنے والے عام انتخابات میں بھی‘ موصوف کو پنجاب یا پورے پاکستان کے انتخابات کی بازی جمانے کی ذمہ داری نہ سونپ دی جائے۔ لیکن جو کرکٹ میں سنگل سکور لیتے ہوئے دو بار پھسلتا ہو‘ وہ پورے ملک کے انتخابی معرکے کیسے مار سکتا ہے؟اس وقت تو عین الیکشن کے اکھاڑے میں کودنے کی تیاریاں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی تعداد کا اندازہ لگانا ہوتو ایک ایک کھلاڑی پر مشتمل پارٹی بھی‘ ڈنڈ بیٹھکیں لگاتے ہوئے دعوے کر رہی ہے کہ اس بار وہ انتخابی دنگل اکیلے ہی جیت لے گی۔اور جب الیکشن ختم ہو گا تو وہ بھاری اکثریت سے وزیراعظم بننے والے شہسوار کا مشہور جملہ دہراتا نظر آئے گا ''مجھے کیوں نکالا؟‘‘ اسفند یار ولی خان ‘ہار جیت کے بعد ہانپتے ہوئے نعرہ لگائیں گے '' مجھے کیوں نکالا؟‘‘ ان کی ٹکر کے کھلاڑی آفتاب شیر پائو ہیں۔ انتخابی معرکہ ختم ہونے پر وہ بھی یہی کہیں گے ''مجھے کیوں نکالا؟‘‘ ایم کیو ایم کا ابھی تک پتہ نہیں کہ اس میں سے کتنے لیڈر‘ کتنی پارٹیوں کے ساتھ بھنگڑا ڈالتے ہوئے سامنے آئیں گے؟جب ان کے تمام ووٹر ایک ہی لیڈر اور ایک ہی پارٹی کے حق میں رائے دیا کرتے تھے تو ایم کیو ایم کو زیادہ سے زیادہ‘ بارہ تیرہ مردانہ اور تین چار نسوانی سیٹیں ملا کرتی تھیں۔ اس بار تو وہ کئی لیڈر اور پہلے جتنے ووٹروں کے ساتھ ‘پندرہ بیس میدانوں میں اترے گی۔ آٹھ دس وزارتیں مانگے گی۔آگے جو قسمت‘ جو نصیب۔
الطاف حسین بھائی کی ایجنسی فاروق ستار بھائی کے پاس ہے۔مصطفی کمال بھائی کی ایجنسی‘ انہوں نے کسی کو دی ہی نہیں۔انتخابات کے قریب آ تے ہی‘ ایم کیو ایم کے اندر سے مزید آٹھ دس لیڈر نکل آئیں گے لیکن ان میں پاکستان کا وزیراعظم کون بنے گا؟اب دیکھتے ہیں بڑی پارٹیوں کی طرف۔پرانے دعویداروں میں ایک'' باپ بیٹا پارٹی ‘‘ بھی ہے۔ اس میں آزمودہ وزیروں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے۔ دو بڑے عہدوں کے لئے ‘باپ بیٹے ہی کافی ہیں۔والد گرامی صدر بنیں گے اوربرخوردار ‘ وزیراعظم۔دوران اقتدار اگر شادی وادی ہو گئی اور بچہ وچہ آگیا تو صوبہ سندھ کی وزارت اعلیٰ بشرط بلوغت‘ بیٹے کے پاس چلی جائے گی۔ر ہ گئے نوجوان نسل کے ہیرو عمران خان ‘تو انہیں بوڑھے پہلوانوں کے دنگل میں گھسنے کی ضرورت نہیں۔ وہ اکیلے میدان میں اتریں گے اور آل رائونڈر کی حیثیت سے کھیلیں گے۔ بائولنگ اور بیٹنگ کی ذمہ داریاں خود نبھائیں گے ۔ باقی ساری پوزیشنو ں پر کھیلنے کے لئے‘ فواد چودھری کافی ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ‘ بائونڈری لائن کے چکر لگاتے ہوئے باآواز بلند پوچھتے پھریں گے '' مجھے کیوں نکالا؟‘‘