"NNC" (space) message & send to 7575

سہاقہا اشتہاری ہو گیا

جس دن عمران خان نے یہ دلیرانہ اور درویشانہ اعلان کیا کہ ''مجھے اپنے خلاف مقدمے کے فیصلے کی پروا نہیں‘ میرا ضمیر مطمئن ہے اور رہ گیا عدالت کے فیصلے کا سوال؟‘ تو مجھے اس کی فکر نہیں۔ فیصلہ جو بھی آئے گا‘ میں اسے تسلیم کروں گا۔ خلاف آیا تو میں سیاست چھوڑ دوں گا‘‘۔ آئین میں صادق اور امین کی جو پابندیاں‘ آئندہ کی انتخابی مہم میں‘ حصہ لینے والوں پر عائد کی جائیں گی‘ ان پر پورے اترنا‘ بیشتر سیاست دانوں کے لئے مشکل اور دشوار ہو گا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے‘ جب گزشتہ انتخابات کے بعد‘ منتخب نمائندوں پر تعلیمی قابلیت کی حدود مقرر کی گئیں تو دونوں ایوانوں کے اندر موجود‘ اراکین کو رکنیت کے لالے پڑ گئے۔ میرا خیال ہے چند ہی منتخب اراکین تھے‘ جو اپنی رکنیت پر کسی شک و شبہے میں مبتلا نہ ہوئے۔ ابھی تک کئی اراکین ایسے ہیں‘ جو خریدی گئی ڈگریوں کے بل بوتے پر موج اڑا رہے ہیں۔ آنے والے انتخابات میں (اگر ہوئے) ڈگری کی شرط‘ ہمارے انتخابی عمل کا لازمی حصہ بن جائے گی۔ ظاہر ہے کہ پاکستانی طور طریقوں کے مطابق‘ شاید ہی کوئی‘ سرکاری شرط پوری کرنے کے لئے‘ جعل سازی سے کام نہ لیتا ہو۔ موٹرسائیکل سے لے کر‘ کار کے ٹیکس تک ‘ہر در جے میں سرکاری ٹیکسوں پر لین دین نہ ہوتا ہو۔ اصل ریٹ ٹیکس وصول کرنے والا آفیسر مقرر کرتا ہے اور گاہک اپنی توفیق کے مطابق بھائو تائوکرتا ہے۔ دونوں کے درمیان سمجھوتے کے تحت‘ ٹیکس ریٹ طے ہو جاتا ہے۔ منتخب نمائندوں کی ڈگریوں کا ریٹ بھی پہلے سے طے ہے۔ شروع میں ڈگری فروشوں کا ریٹ بہت سستا تھا۔ بازار کے بھائو بھی کھل گئے تھے۔ لیکن بہت سے پیشہ ور سیاست دانوں نے''جائز‘‘ ڈگریوں کا مناسب بندوبست کر لیا۔ اب جو بھی آئے گا‘ وہ ڈگری ہولڈر ہی ہو گا۔ جس شخص نے عمران خان اور جہانگیر ترین‘ کے خلاف صادق 
اورامین کے سوال پید اکر کے مقدمات دائر کئے‘اس کے بارے میںعمران خان دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ منشیات کا تاجر ہے۔ یہ تو مجھے بھی معلوم ہے کہ موصوف پر اس قسم کا کوئی مقدمہ قائم ہوا تھا لیکن جو سیاسی سودے‘ آمروں کے دور میں منڈی کا مال بن کر مارکیٹ میں آتے ہیں‘ آنے والی انتخابی مہم میں ان کی تعداد قدرے کم ہو جائے گی اور ہر سال یہ کمی بڑھتی جائے گی۔ یہ محض میرا 
اندازہ ہے۔ اگر عمران خان انتخابی کامیابی حاصل کر کے‘ وزیراعظم بنتے ہیں‘ اور انہیں دوسری مدت بھی مل جاتی ہے تو دس سال میں‘ نہ صرف معاشرہ سنبھل جائے گا بلکہ چور بازاری‘ رشوت‘ بلیک مارکیٹ‘ ٹیکس چوری‘ کسانوں کے مال کی لوٹ مار جیسی ان گنت فریب کاریوں اور جعل سازیوں میں کمی آ جائے گی۔
خان صاحب سے جو میری توقعات ہیں‘ ان کے مطابق محنت کشوں اور غریبوں کو بہت سے فوائد مل جائیں گے۔ مجھے ان کی تقریروں اور تحریروں تک‘ جتنی رسائی حاصل ہے‘ ان کی روشنی میں‘ بہت سی امیدیں لگا بیٹھا ہوں۔ لیکن اگر رائج الوقت منڈی کا مال‘ ہر طرف غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا تو پھر مایوسی ہی مایوسی ہے۔ آمروں کے گزشتہ ادوار میں جو سماجی‘ اخلاقی اور تعلیمی سیاہ کاریاں پھیل گئی ہیں اور ان آمروں نے باقی بے ایمانیاں اور بد اعمالیاں پھیلا دیں‘ ایک لیڈر اور ایک پارٹی‘ انہیں پوری طرح ملیا میٹ نہیں کر پائیں گے۔ میں نے کراچی میں ایک پارٹی کو بنتے بکھرتے دیکھا ہے۔ جب تک وہ پارٹی معرض وجود میں نہیں آئی تھی‘ کراچی بے حد صاف ستھرا‘ پرامن اور مہذب شہر تھا۔چھوٹے چھوٹے آوارہ منش‘ گلیوں بازاروں میں‘ چھیناجھپٹی کر کے بھاگ لیا کرتے تھے۔ لیکن 1960ء تک ایک نیا چال چلن سامنے آیا۔ پوری پوری فیملیز بے خطر‘ اپنے بچے بچیوں کے ساتھ‘ سیر گاہوں میں آزادی سے 
پھرتے۔ رات گئے تک کلفٹن‘ کیماڑی‘ صدر بازار اور شہر میں پھیلی ہر طرف تفریح گاہوں میں رش رہتا اور شاید ہی کوئی آوارہ گرد یا لفنگا‘ اس مہذب ماحول میں دخل اندازی کرتا۔ آوارہ گردوں کی اپنی ایک دنیا تھی مگر وہ اسی میں مست رہا کرتے۔ اعلیٰ طبقہ اپنی دنیا میں زندگی گزارتا۔ متوسط طبقے کے لوگ اپنی زندگی‘ اپنے ماحول میں بے خوف و خطر گزارتے۔ اور پھر لسانی بنیاد پر جو ایک نئی تہذیب معرضِ وجود میں آئی‘ اس نے کراچی شہر کا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔ سیاست کے نام پر اس غیر سیاسی تنظیم نے‘ 
بظاہر تو مہذب‘ تعلیم یافتہ اور سیاسی کارندوں کو منظم کیا لیکن اس کے اندر سے غنڈوںکے گروہ پیدا ہونے لگے۔ بھتہ لینا‘ عام شہریوں سے زبردستی لوٹ مار اور اغوا برائے تاوان لینا‘ اس تنظیم کا دھندہ بن کے رہ گیا تھا۔ اس کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو چکا ہے لیکن وہ منطقی انجام کو نہیں پہنچا۔
پُر امن اور مہذب سماجی رکھ رکھائو رکھنے والے اس شہر کا‘ اب حلیہ بگڑ چکا ہے۔ کچھ حلیہ بگاڑنے والے باہر کے ملکوں میں منتقل ہو گئے۔ ان میں سے زیادہ منظم گروہ‘ افریقہ کے کئی ملکوں میں جا بسے۔ تعلیمی اداروں کا کلچر انہوں نے تباہ کر دیا۔ خواتین کی پُرامن نقل و حرکت مشکل بنا دی گئی۔ ناجائز کاروبار عام ہو گئے۔ غرض یہ کہ غنڈہ گردی کرنے والوں نے گروہ بنا کر چھینا جھپٹی کو روزگار بنا لیا۔ اوباشوں کے بغیرآج کے کراچی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ 60ء کے عشرے میں سیاست کے بیوپاریوں کا لوٹ مار کرنے والا جو طبقہ وجود میں آیا‘ وہ تنظیمی طور پر منتشر ہوتا نظر آرہا ہے لیکن اب اوپر کے طبقوں میں لوٹ مار کرنے والے منظم سیاسی گروہ‘ کراچی سے باہر نکل کر سندھ میں بھی پھیلتے جا رہے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق صرف سندھ کی پولیس میں 12 ہزار چھوٹے بڑے افسروں کی نشاندہی ہوئی ہے جنہوں نے عام شہریوں کی زندگی‘ اثاثے اور کاروبار تباہ کر ڈالے ہیں۔ پہلے کراچی کو سنبھالنا ناممکن ہو رہا تھا‘ اب دیہی سندھ میں بھی سرکاری غنڈے منظم ہو کر‘ عام شہریوں پر مسلط ہوتے جا رہے ہیں۔ پنجاب‘ سندھ سے کم نہیں۔ شہروں سے باہر نکل کر دیہات اور چھوٹے قصبوں میں تو عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ میں نے عمران خان کے جلسے‘ جلوسوں میں نئی ابھرتی ہوئی جس نسل کو دیکھا ہے‘ ا س سے یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ نوجوانوں میں‘ اپنے ملک اور معاشرے کو بدلنے کی پُرجوش خواہشیں پائی جاتی ہیں۔ نوجوانوں کی یہ نسل جس کو عمران خان‘ سیاسی زندگی میں لا رہا ہے‘ اس میں بدمعاشوں اور بدکاروں کو‘ راہ راست پر لانے کی خواہش اور توانائی موجود ہے اور اگر آنے والی نسل بدکاریوں‘ لوٹ مار اور بد اخلاقیوں پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئی تو ہمارا ملک ایک پُرامن اور مہذب زندگی کی طرف بڑھنا شروع کر سکتا ہے۔ ورنہ 
ساڈا سارا کجھ کھو گیا
سہاقہا اشتہاری ہو گیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں