"NNC" (space) message & send to 7575

تیرے عفوِ بندہ نواز میں

بھارت کے تنگ نظر حکمران‘ مسلم کلچر‘ ان کے رہن سہن حتیٰ کہ روزمرہ کی خوراک اور روزگار کی دوڑ میں‘ ان پر دبائو بڑھا رہے ہیں۔کل میں ایک بھارتی چینل دیکھ رہا تھا‘ بحث نہیں چل رہی تھی بلکہ فیصلے سنائے جا رہے تھے۔ موضوع یہ تھا کہ بھارت میں اب مسلمانوں کے قبرستان ختم کر دئیے جائیں۔اگلے مرحلے میں درگاہیں‘ خانقاہیں اور بزرگان دین کی قبروں کے نشان بھی مٹا دئیے جائیں۔یہ کسی متعصب ہندو یا مزار پرست مسلمانوں کا جھگڑا نہیں‘ باقاعدہ پورے معاشرے کا مسئلہ ہے۔کئی ریاستوں میں قوانین بن رہے ہیں۔ کئی شہروں میںمسلمانوںکی کمیٹیاں قائم کر دی گئی ہیں۔ ظاہر ہے وہ‘ طاقتور اکثریت اور حکمرانوں کے حاشیہ بردار ہی ہو سکتے ہیں‘ جو ایسی کمیٹیوں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔ بھارتی ریاستوں میں مسلمانوں کے قبرستانوں کے لئے ‘ خصوصی قوانین تیار کئے جا رہے ہیں۔ بعض اسلامی معاشروں میں قبرستانوں کی تاریخ اور عمل کے بارے میں‘ وہ مولانا حضرات ہی ہوں گے‘ جو بھارتی ہندوئوں کو مسلم آزار طور طریقے بتا رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ خصوصاً بڑے شہروں میں‘ جہاں قبرستانوں کی زمینوں کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں‘و ہاں خود مسلمان ہی کمیٹیوں کو‘ اسلامی معاشروں کی روایات بتا کر‘ بھارتی سرمایہ داروں کو قبرستان کی زمینیں ہضم کر کے‘ وہاں تجارتی عمارتیں اور دکانیں تعمیر کرنے کے مشور ے دے رہے ہیں ۔ کئی شہروں میں مسلمان مزاحمت کر رہے ہیں۔ ردعمل میں ان کے خلاف سرکاری اہلکار‘ حکومتی وزرا‘ غنڈے اور پولیس طاقت کے استعمال کے‘ سرمایہ داروں کو طریقے بتا رہے ہیں اور تیزی سے مسلمانوں کے قبرستان مٹائے جا رہے ہیں۔
ظاہر ہے سعودی عرب کی مثالیں‘ ہندو حکمرانوں کی کتابوں میں تو نہیں دی جا سکتیں۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قبرستانوں کا روایتی طریقہ کار یہ ہے کہ قبر کے لئے گڑھا کھود کر‘اس کے اوپر ایک بڑا سا پتھر رکھ دیا جاتا ہے‘ جو ڈھکنے کا کام دیتا ہے۔مکہ مکرمہ میں قبرستان کا نام‘ جنت المعلیٰ اور مدینہ منورہ میں یہ نام‘ جنت البقیع ہے ۔ تدفین کا طریقہ کار یہ ہے کہ جیسے ہی کسی قبر میں ''مدفون‘‘ شخص کے جسم کا گوشت‘ کیڑے مکوڑے ہضم کر جاتے ہیں اور خالی ہڈیوں کا پنجر رہ جاتا ہے تو ڈھکنا اٹھا کر ‘اس پرانی میت کی ہڈیوں کو‘قبر کے گڑھے میںایک طرف کر دیا جاتا ہے اور نئی میت‘ خالی جگہ پر احتیاط اور احترام کے ساتھ رکھ دی جاتی ہے۔اس معاملے میں یہ خصوصی حکم ہے کہ میت کی‘ کسی بھی حالت میں توہین نہ کی جائے۔ اسے نہایت احترام اور احتیاط کے ساتھ‘ آخری آرام گاہ میں پہنچا دیا جائے۔ اسی لئے مذکورہ دونوں بڑے شہروں میں قبرستان کی جگہ بڑھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ میں‘ قبرستان ایک ہی طرز کے ہیں۔جنت البقیع‘ مسجد نبویؐ کے پہلو میں ہے۔ یہاں قبرستان بھی پانچ سات ایکڑ میں واقع ہے۔اس کے گرد چار‘ ساڑھے چار فٹ اونچی دیواریں موجود ہیں۔تدفین کے لئے ایک ہی مخصوص جگہ ہے‘ جہاں پر قبروں کے گڑھے کھدے رہتے ہیں اور نئے مہمانوں کے لئے ڈھکنوں کے نیچے محفوظ رہتے ہیں۔مکہ مکرمہ میں بعض قبور کے اوپر‘ گتے یا موٹے کاغذ پر ہاتھ سے‘ مرحوم کا نام لکھ کر لگادیا جاتا ہے جو چند روز بعد دکھائی نہیں دیتا۔
بھارت میں تیزی کے ساتھ‘ قبرستانوں کو ناپید کرنے کا عمل جاری ہے۔چھوٹے شہروں میں قبرستان‘ یا تو سمیٹ دئیے گئے ہیں یا انہیں غائب کیا جا رہا ہے۔ بعض شہروں میں جہاں مخصوص مسلک کے علمائے کرام کو ‘کمیٹی میں شامل کر لیا جاتا ہے‘ سرکاری مشیر ‘ سعودی عرب کا حوالہ دے کر‘ ہندو لیڈروں کو بتاتے ہیں کہ میت کو دفنانے کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ آپ ایک قبر کے اندر‘ دوسری میت احترام سے رکھ سکتے ہیں۔ جبکہ دیگر علمائے کرام اصرار کرتے ہیں کہ جس طریقے سے بھارت اور پاکستان میں قبرستان بنائے گئے ہیں‘ اسی طریقے کو جاری رکھا جائے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ہندو سرمایہ دار اورتاجر ‘ قبرستان کی ان زمینوں پر ہر حال میں قبضہ کرتے جا رہے ہیں۔ مسلمانوںکو شہر سے کافی دور‘ کوئی بے کار سی جگہ ڈھونڈ کر‘ تدفین کے لئے دے دی جاتی ہے۔جب کوئی نیک نام اور قابل احترام بزرگ‘ اپنے خدا کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس کی قبر پر عقیدت مند‘ چھت یا گول سا گنبد بنا دیتے ہیں لیکن کئی ریاستوں میں نیا گنبد بنانے پر پابندی لگا دی گئی ہے ا ور بیشتر شہروں میں پرانے گنبدوں کو بھی شہید کیا جا رہا ہے۔
ایسا نہیں کہ قبرستانوں کو صرف بھارت میں ملیا میٹ کیا جا رہا ہے۔ میں نے اپنے ہاں بھی‘ متعدد قبرستان دیکھے ہیں جو بیس تیس سال پہلے موجود تھے‘ اب اس طرف سے گزرتا ہوں تو وہ نا پید ہو چکے ہیں۔ یہاں مختلف مسالک کے مسلمان‘ غائب ہوتی ہوئی قبروںکے لئے کوئی نئی جگہ ڈھونڈتے ہیں یا کسی حکمران پارٹی کا نمائندہ‘ خالی کی گئی زمین کو تبرک سمجھ کر ‘اپنی جھولی میں ڈال لیتا ہے۔امراء اور دولت مند سیاست دان‘ اپنے خاندان میں اللہ کو پیارے ہونے والوں کی قبروں کے لئے نہ صرف پہلے سے جگہ خرید کر رکھ لیتے ہیں بلکہ اس کے چاروں طرف چاردیواری بنا کر یہ احاطہ خاندان کے لئے مخصوص کر دیا جاتا ہے۔جہاں تک مجھے یاد ہے‘ شریف خاندان کے اللہ کو پیارے ہونے والے افراد کے لئے کافی بڑی جگہ ‘قبرستان کے لئے مخصوص کی جا چکی ہے‘ جہاں غالباً چوبیس گھنٹے ایک گارڈ ڈیوٹی پر رہتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں