"NNC" (space) message & send to 7575

عزت مآب

(قسط اول)
کہاوت ہے کہ ''جج نہیں بولتے‘ ان کے فیصلے بولتے ہیں‘‘۔ لیکن ہمارے جمہوری نظام کا کیا کہنا؟ یہاں فیصلے بھی بولتے ہیں۔ جج بھی بولتے ہیں۔ ملزم بھی بولتے ہیں۔ گواہ بھی بولتے ہیں۔ پولیس کے اہلکار بھی بولتے ہیں۔ اور موقع پا کر جنرل حضرات بھی بولتے ہیں۔ اپنی سنانے کے لئے‘ قومی اسمبلی کی عمارت میں جا کر‘ جمہوریت کے سارے پہرے داروں کو اکٹھا کر کے‘ ان کے سامنے بولتے ہیں۔ بڑی بے تابی سے ہمارے منتخب ارکانِ پارلیمنٹ‘ سینیٹ ہال کے اندر‘ بڑے مؤدب انداز میں‘ اعلیٰ فوجی افسران کو سن رہے تھے۔ یہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ مجھے تو یوں لگ رہا تھا کہ ہمارے منتخب نمائندے‘ فوج کے اعلیٰ ترین افسروں کی نہ صرف تقریریں سن رہے ہیں بلکہ اگر وہ چپ ہو جاتے تو کوئی نہ کوئی منتخب نمائندہ‘ جنرل صاحب سے سوال کر کے‘ انہیں ٹکٹکی باندھ کے دیکھنے لگتا کہ جنرل صاحبان کے منہ سے موتی کیسے جھڑتے ہیں؟ میں چند سال علما حضرات کے ساتھ قید رہا ہوں۔ تحریکِ ختم نبوتﷺ کے دوران چھ ماہ‘ علما کی مجالس میں ہی گزرے۔ وہاں جا کر پتا چلا کہ ختم نبوتﷺ کی شمع روشن کرنے والے سارے منتخب نمائندگان‘ اگرکسی کو احترام اور غور سے سنتے ہیں تو وہ ہمارے محبوب جنرل صاحبان ہوتے۔ آج ہی جب آرمی چیف‘ سینیٹ ہال سے نکل کر باہر جانے لگے تو شروع میں چند قدم تک‘ سینیٹ کے چیئرمین ان کے ساتھ چل رہے تھے۔ آنکھ جھپک کر دیکھا تو باقی سارے غائب اور بھاری بھرکم مولانا صاحب‘ چیف آف آرمی سٹاف کے ساتھ‘ ایڑھیاں اٹھاکر کندھا ملانے کی کوشش میں ہانپتے ہوئے‘ چلے جا رہے تھے۔ اگر آپ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہر فوجی آمر کے لئے‘ ہمیشہ مولانا حضرات نے میدان ہموار کیا۔ ان دنوں ایک بار پھر میدان ہموار کیا جا رہا ہے۔ ہونا بھی چاہئے۔ اگر ہم اپنی فوج کے معیاری خیالات نہیں سنیں گے تو سرحد پر بیٹھے دشمن کی فوجوں کی چلائی ہوئی گولیوں اور راکٹوں کی موسیقی سنیں گے؟
میں ہمیشہ مولوی صاحبان کے راستوں پر نظریں گاڑے‘ یہ دیکھتا رہتا ہوں کہ شمع رسالتؐ کے پروانے کب جوش میں آتے ہیں؟ کب گلیوں میں جلوس نکالتے ہیں؟ اور کب آمروں کا تختہ الٹ کر ‘ بے کار بیٹھے‘ سیاست دانوں پر زندگی اور عیش و عشرت کے راستے ہموار کرتے ہیں؟ کبھی غورکر کے دیکھئے گا کہ پاکستان میں فوجی آمروں کے لئے راستے کس نے ہموار کئے؟ آپ کو یاد ہو گا کہ فوجی حکمرانوں کی جدائی میں اداس ہو کر‘ ہمارے مولوی حضرات کتنے مضطرب ہو جایا کرتے تھے اور پھر کسی بہانے‘ کوئی نہ کوئی تحریک چلا کر اپنے محبوب جنرل صاحبان کے لئے‘ جھاڑو پھیر کے‘ کیسے راستوں کو ہموار کیا کرتے تھے؟ جھاڑو صرف اپنے محبوب جنرل حضرات کی راہوں میں نہیں پھیرا کرتے‘ جب وہ سڑکوں پر نکلتے تو خدا جانے کہاں کہاں جھاڑو پھرتا۔ پہلا جھاڑو1958ء میں پھرا تھا۔ اس وقت مولوی حضرات نے آئین میں اسلام داخل کرنے کے لئے‘ حلوے مانڈے اور قورمہ بریانی سے منہ پھیر کے‘ سیاست دانوں اور اسمبلیوں کے خلاف‘ حب الوطنی کی ایسی لہر چلائی کہ ہموار اور صاف کئے ہوئے راستوں پر جنرل صاحبان کو ایوانِ اقتدار پہنچنے کی آسانیاں پیدا ہو جاتیں۔ پہلے فوجی حکمران‘ جنرل ایوب خان تھے‘ دورانِ اقتدار ہی وہ فیلڈ مارشل بنے اور تب تک بنے رہے جب تک راولپنڈی کی سڑکوں پر طالب علموں‘ کسانوں اور مزدوروں نے جلوس نکال کر‘ فیلڈ مارشل کی شان میں قصیدے گانا شروع نہیں کئے۔ مولوی حضرات نے جنرلوں کو ایسی راہ دکھائی جو سیدھی ایوانِ اقتدار کی طرف جا رہی تھی۔
کافی برسوں کے بعد اب مولوی حضرات سڑکوں اور چوراہوں کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ یہ بابرکت شخصیات ہمارے گلی محلوں‘ سڑکوں اور پگڈنڈیوں پر قدم رنجا فرمانے کی جھلکیاں دکھا رہی ہیں۔ بہت عرصے کے بعد انہوں نے حکمرانوں میں سے ''داڑھی منڈے‘‘ سیاست دانوں‘ لیڈروں اور کارکنوں کی غیرت کو للکارنے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ ابھی نعروں‘ تبلیغی لیکچروں اور دھیمے سروں میں‘ ارباب اقتدار کو بے چین کر رہے ہیں۔ ان کی غیرت ایمانی کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کے جگا رہے ہیں۔ چند منتخب سیاست دانوں سے استعفے مانگے جا رہے ہیں۔ ہمارے چیف آف آرمی سٹاف‘ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے ساتھی افسران کے ہمراہ‘ اصل ایوان اقتدار کا جائزہ لیا۔ قومی اسمبلی پر طائرانہ نگاہ ڈالی اور پھر سینیٹ کے ہال کے اندر جا کے چاروں طرف دیکھا۔ اطمینان کی سانس لی۔ کرسیوں کا جائزہ لیا۔ اور جب تسلی ہو گئی کہ یہ آرام دہ نشست ہے تو اطمینان سے بیٹھ گئے۔ مولانا عبدالغفور حیدری جو پارلیمنٹ ہائوس کے بیرونی دروازے ہی سے‘ چیف آف آرمی سٹاف‘ جنرل قمر باجوہ کے ساتھ چپک گئے تھے‘ وہ ان کے رخصت ہونے تک چپکے رہے۔ آخرکار جنرل صاحب سڑک پر آکے اپنی کار کے قریب پہنچے‘ انہوں نے جھٹکا دے کر مولوی صاحب کو پیچھا ہٹایا اور کار کے اندر بیٹھ گئے۔ اگر ایسا نہ کرتے تو مولانا حیدری صاحب کار کے اندر بیٹھ چکے ہوتے۔ ادھر ان کی پارٹی کے لیڈر‘ برق رفتاری سے اپنے ہم جولی مولوی صاحبان کے دستے لے کر‘ اقتدار کے ایوانوں میں گشت کر رہے ہیں۔ ان سے کوئی جگہ پوشیدہ نہیں۔ وہ پارلیمنٹ بلڈنگ کے اندر سارے وزیروں‘ نائب وزیروں‘ سپیکر اور چیئرمین کے کمرے‘ اپنے شاگردوں کو دکھاتے پھر رہے ہیں۔ میں تو صرف اتنی ہی قیاس آرائی کر سکتا ہوں کہ رواج کے مطابق مولوی حضرات‘ ایوان اقتدار سے پہلے فوج کو نکالیں گے اور پھر اپنی باری آنے پر‘ لاچے کے کس بل نکالتے ہوئے‘ کرسی پر پھونک مار کے براجمان ہو جائیں گے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں