جس دن عزت مآب میاں شہباز شریف کی ترقی کی خبر پڑھی کہ وہ پاکستان کے وزیر اعظم بننے والے ہیںمیں نے اطمینان کا سانس لیا ۔اب پورا پاکستان ان کے زیر ِ انتظام آجائے گا ۔ عوام کے لئے ہر طرف آرام ہی آرام ، سہولتیں ہی سہولتیں اور موج ہی موج رہے گی ۔ جب سے شہباز شریف صاحب کے وزیر اعظم بننے کی خبر سنی تھی‘ میں بے تابی سے اس دن کے انتظار میں تھا کہ وہ کب اپنی اصل ذمہ داریاں سنبھالیں گے اور یہ خبر اسی دن مل گئی تھی جب جناب ِ نواز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تھا۔ نواز شریف ایک کے بعد دوسری وزارت ِ عظمیٰ لپیٹتے چلے گئے تو مجھے شک ہو گیا تھا کہ شہباز شریف اپنی اصل ذمہ داریاں کب سنبھالیں گے ؟اخباروں میں تو خبریں چھپ گئیں ، ان کے خیر خواہوں نے شکرانے کے وظیفے بھی پڑھ لئے مگر یہ پتا نہیں کہ خالی دعائوں اور وظیفوں سے وزارت ِعظمیٰ ملتی ہے ؟ یا کوئی اور طریقہ استعمال کرنا پڑے گا۔ کیونکہ ابھی صرف خبر آئی ہے اور وہ بھی لنگڑاتی سی خبر ۔ بے شمار لوگوں کی دعائوں کے بعد نواز شریف نے آخر کار اپنی زبان سے یہ مہکتا ہوا جملہ ادا کیا کہ ملک کے آئندہ وزیر اعظم شہباز شریف ہوں گے ۔وزارت ِعظمیٰ کا منصب ایسا ہے جو ایک بار شکنجے میں آجائے تو اسے آزاد نہیںکرتا ۔ سب سے پہلے وزارتِ عظمیٰ نوابزادہ لیاقت علی خان کو ملی تھی۔ انہیں ایک گولی کے بعد آزادی نصیب ہوئی ۔دوسرے وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو تھے جو وزارتِ عظمیٰ کے شکنجے میں آئے۔ یہ ایسا منصب ہے جو ایک بار مل جائے تو اندر سے یہی آواز آتی ہے
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے
اسی آرام کی خاطر انہوں نے دوسری مرتبہ شکنجے میں آنے کے لئے زبردست اہتمام کے ساتھ انتخابات کرائے ، وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا لیکن مخالفین پنجے تیز کر کے غول کی صورت میں ان کے پیچھے پڑ گئے اور تب سانس لیا جب بد خواہوں نے انہیں غیر فطری موت کے کنویں میں دھکیل دیا۔اقتدار ضیاء الحق نے سنبھالا اور پھر موت نے انہیں دوبارہ مٹی پر پائوں رکھنے کی اجازت نہ دی ۔ وہ راکھ میں بدلے تو انہیں مٹی نہیں، راکھ نے آغوش میں لیا۔
ضیاء الحق نے اقتدار کو بانہوں میں لے کر زور سے بھینچ لیاتاکہ اب یہ مسحور کن چیز ان کے ہاتھ سے نہ جائے ۔ انہوں نے احتیاط در احتیاط کے لئے
غیرجماعتی انتخابات کرائے اور جتنے جیت کرآئے، انہیں اپنے حضور طلب کر کے چٹکی بجائی اور کہا کہ آج سے تم مسلم لیگی ہو۔ انہوں نے جیت کرا ٓئے ہوئے ریوڑ میں سے ایک لمبے آدمی کو دیکھ کر فیصلہ کیا کہ وزارت ِ عظمیٰ کی ٹوپی اسی طویل قامت آدمی کے سر پہ رکھ دوں ۔لیکن یہ ٹوپی جونیجو صاحب کو راس نہ آئی ۔ جنرل ضیاء نے فیصلہ کیاکہ وزارت ِ عظمیٰ بڑی خطرناک چیز ہے ۔ اس سیدھے سادے زمیندار نے ایمانداری اور محنت سے کام شروع کیا لیکن غیر جماعتی الیکشن سے نکلے ہوئے پرندوں میں، وہ خاصیت ہی نہیں تھی کہ وہ کسی نظم و ضبط کے تحت چل سکیں۔ جب تک جونیجو صاحب رہے، مختلف سمتوں میں اڑتے ہوئے پرندوں کے پیچھے دوڑتے دوڑتے ہانپ گئے۔ کسی وزیر کو باہر نکالا ، کسی کو گھونسلے میں بند کیا ۔ انہی گھونسلوں کا پیچھا کرتے کرتے ضیاء الحق نے اڑنے کی کوشش کی لیکن صحرا کی ریت نے ،انہیں اپنی آغوش میں لے لیااور جنرل صاحب کی راکھ کی ایک چٹکی بھی ریت کی مٹھی میں نہ آسکی ۔ تھوڑی سی راکھ دامن میں لے کر یہ باکس زمین میں دفن ہو گیا۔ کسی کو آج تک پتا نہیں اس باکس کے اندر کیا تھا؟باکس کا ڈھکنا اٹھا کر کوئی اندر نہیں جھانک سکا۔جو آیا اس نے قبر پر نظر دوڑائی اور کہا:
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
جنرل ضیاء کے بعد صدر اسحاق خان نے عام انتخابات کرائے لیکن بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم قرار پائیں ۔ان کے بعد موجودہ نا اہل وزیر ِ اعظم کرسی اقتدار پر بیٹھے اور پھر بیٹھتے چلے گئے ۔ اسی عرصے کے دوران بی بی دوبارہ وزیر اعظم بنیں لیکن نواز شریف کے بعد کوئی کسی کا نہ بن سکا ۔تین مرتبہ کرسی ٔ اقتدار کو گرم کر کے، نواز شریف اٹھنے کا نام نہیں لے رہے تھے لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان نے انہیں نا اہل قرار دے کر، شاہد خاقان عباسی کو چانس دے دیا۔فی الحال وہ عارضی وزیر اعظم ہیں ۔ان کی جگہ لینے کے لئے کئی مرتبہ کپڑے پہن پہن کر شہباز شریف تھک گئے ۔ انہوں نے سب کچھ خدا پر چھوڑ کر، پنجاب کو ہی مضبوطی سے پکڑ رکھاہے۔ ان دنوںوہ پنجاب کی گھسی پٹی وزارت ِ اعلیٰ کی فائل ، کار میں رکھ کر بے چینی سے بیٹھے کروٹیں بدل رہے ہیں۔ ڈرائیور نے گاڑی روکی ۔شہباز شریف نے کار کا دروازہ کھول کر دیکھاتو سامنے حمزہ شہباز انتظار میں کھڑے تھے۔ان کے ساتھ ہی مریم نواز بھی موجود تھیں، شہباز شریف ابھی تک مخمصے میں ہیں کہ فائل کس کو دیں ؟