"NNC" (space) message & send to 7575

اب ہمیں خطرہ نہیں

پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات اور امریکی صدر‘ ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان پر شدید الزامات‘ ایسی لڑائی کا پیش خیمہ ہیں جو خطے میں تباہی کی بنیاد بن سکتی ہے۔ ٹرمپ اور مودی دونوں ہی‘ پاکستان کے خلاف ایک مشترکہ محاذ بنانے پر مائل نظر آ رہے ہیں۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف جو عملی اقدامات کئے جا رہے ہیں‘ وہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں۔ ان دونوں کا ہدف پاکستان ہے۔ سب سے پہلے ہم اپنے اندرونی حالات پر نظر ڈالیں تو کئی کمزوریاں اور خرابیاں خطے کے استحکام کے لئے پریشان کن خطرے کی بنیاد بن رہی ہیں۔ حالیہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ بھارت اور امریکہ مل کر پاکستان کے خلاف خطرناک مشترکہ محاذ کی طرف قدم بقدم آگے بڑھ رہے ہیں۔ بھارت میں بی جے پی کی فیصلہ کن انتخابی کامیابی کے بعد‘ مودی نے سب سے پہلے اسرائیل کے ساتھ باہمی تعاون کا خفیہ معاہدہ کیا تھا۔ ہندو اور یہودی کی دیرینہ مفاہمت ایک طے شدہ امر ہے۔ بدقسمتی سے یہ دونوں جنگجو طاقتیں ہمارے خطے میں امن کو پامال کرنے پر متفق ہیں۔ انہیں کسی معاہدے کی ضرورت نہیں۔ ان دونوں کا مذہبی اور نظریاتی اتفاق صرف ایک بات پر ہے کہ مسلمانوں کو کمزوری کی انتہا تک پہنچانے کی مشترکہ پالیسیاں جاری رکھی جائیں۔
بھارت اور اسرائیل کے مابین باہمی تعاون‘ تجارت اور متحارب پالیسیاں ایک ہی مقصد حاصل کرنے پر متفق ہیں۔ جب تک امریکہ اپنی ضرورت کے تحت پاکستان سے درپردہ خفیہ مقاصد حاصل کرتا رہا‘ پاکستان کی پالیسیاں اتحادی ملک کی طرح مرتب کی جاتی رہیں۔ امریکہ کی طرف سے بھارت کو جو پہلی امداد ملنا شروع ہو گئی تھی‘ اس سے دونوں کے متفقہ عزائم واضح ہو گئے اور مستقبل کی عالمی سیاست اور محاذ آرائیوں میں یہ دونوں ملک عملی طور پر اتحادی بن گئے۔ سوویت یونین جو کشمیر کے سوال پر بھارت کا عملی مددگار بن گیا تھا‘ اس سے بھار ت کے ہندو انتہا پسندوں کو بھرپور حمایت حاصل ہو گئی۔ یاد رہے سوویت یونین نے پہلے ہی بھارت کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کر لئے تھے۔ سوویت قیادت کا دورۂ بھارت عالمی توازن طاقت کو بدلنے کا ذریعہ بن گیا۔ سوویت قیادت جس کے سربراہ‘میخائل گورباچوف تھے‘ نے بھارت کے ساتھ اپنی قربت ظاہر کرنے کے لئے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ دلی پہنچنے کے لئے‘ مقبوضہ کشمیر کی فضا استعمال کریں گے۔ اس اقدام نے عالمی توازن طاقت کو بدل کے رکھ دیا۔ پہلے اقوام متحدہ میں کشمیر کے سوال پر پاکستان کے حق میں کوئی نہ کوئی ویٹو طاقت ووٹ کر دیتی تھی لیکن جب سوویت یونین نے کشمیر کے تنازعے پر بھارتی قبضے کو جائز تسلیم کرنے کا واضح عندیہ دیا تو یہ بات عیاں ہو گئی کہ اب امریکہ بھی کشمیر کے سوال پر بھارت کی حمایت کرے گا۔
یہ ایک تاریخ ساز موڑ تھا۔ اس کے بعد دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں تھی جو امریکہ اورسوویت یونین کے متوقع ویٹو کا استعمال روک سکے۔ یہاں میںدکھ بھرے احساسات کے ساتھ یہ باور کرنے پر مجبور ہوں کہ تنازع کشمیر پر ویٹو پاور کی حمایت بھارت کے حق میں جا چکی۔ اس موقع پر عالمی سیاست کی جو نئی بساط ترتیب پا رہی تھی وہ مکمل طور پر پاکستان کے خلاف ہو گئی۔ عالمی سیاست میں یہ ایک بہت بڑی تبدیلی تھی۔ ایشیا کے سوال پر امریکہ اور سوویت 
یونین کا مشترکہ اقدام اور برصغیر کے بارے میں دونوں کی پالیسی میں تبدیلی نے ہمیں عالمی برادری میں تنہا کر دیا۔ کوئی بڑی طاقت ہماری اتحادی نہ بنی اور نہ ہی کسی نے ہمیں عالمی تنہائی سے نکالنے کے لئے کوئی قدم اٹھایا۔ اس کے بعد کی صورت حال یہ ہے کہ روس (جو سوویت یونین ٹوٹ جانے کے بعد تیسری سپر پاور بن گیا) ہمارے لئے بہتر ثابت ہوا۔ بھٹو صاحب نے پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کے لئے جو دو اہم بنیادی فیصلے کئے‘ آج وہی ہماری آزادی اور استحکام کو تقویت د ے رہے ہیں۔ یہ بھٹو صاحب ہی تھے‘ جنہوں نے چین کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر کے‘ ہماری آزادی اور خود مختاری کے لئے ایک عالمی طاقت کی حمایت کا راستہ ہموار کیا۔ 1965ء کی جنگ میں چین دنیا کا واحد ملک تھا‘ جس نے آگے بڑھ کر پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کو محفوظ کیا۔ جب ہمیں مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں کے دفاع کا سوال درپیش تھا‘ اس وقت چین نے عالمی تاریخ کا ایک انوکھا قدم اٹھایا۔ چین نے قریباً ڈیڑھ دو سو بھیڑیں لا کر بھارت کے دارالحکومت میں کھڑی کیں اور مطالبہ کیا کہ بھارت ہماری اغواشدہ بھیڑوں کو واپس دے ورنہ... بھارتیوں نے بھگدڑ میں اس سے تین گنا بھیڑیں جمع کر کے چینی سفارت خانے کے سامنے کھڑی کر دیں اور اس کے بعد طے ہو گیا کہ بھارت اور امریکہ دونوں‘ پاکستان پر جارحیت نہیں کریں گے۔ آج وہی چین کئی معاہدوں کے تحت ہمارا اتحادی بن چکا ہے اور بعض مقامات پر چین کے مفادات ہمارے ساتھ مشترک ہونے کے بعد تعلقات کی نوعیت ہی بدل گئی ہے۔ بھارت کی مجال نہیں کہ اب ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کر سکے۔ اب مسئلہ صرف مسلم لیگ (ن) کی منتشر خیالی کا ہے جس سے ہمیں کوئی بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان اور چین کی دفاعی پالیسیوں میں اشتراک روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ پاک فوج بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے اب پوری طرح تیار ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں