"NNC" (space) message & send to 7575

ہم کہ خوش قسمت ہیں

سال رواں کے وسط میں ہونے والے انتخابات میں اگر مسلم لیگ کامیاب ہو گئی اور نواز شریف نے پھر سے کسی نئے وزیراعظم کا انتخاب کر لیا تو پھر شاہد خاقان کا کیا بنے گا؟ شاہد خاقان کو وزیراعظم منتخب کرتے وقت‘ نواز شریف کے ذہن میں کئی نام آئے تھے‘ ان میں سے ایک تو خواجہ آصف تھے جو دوسرے کئی نام تھے‘ انہیں نہ عوام نے کبھی اہمیت دی اور نہ پارٹی نے۔ جب عباسی صاحب کا انتخاب کر لیا گیا تو سچی بات ہے‘ مجھے ہرگز اندازہ نہ ہوا کہ میاں صاحب نے کس بنا پر انہیں وزیراعظم منتخب کیا؟ شاہد خاقان کو دیکھ کر مجھے پطرس کا ایک جملہ یاد آتا ہے۔ کہنیا لال کپور‘ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لینے آئے۔ پطرس صاحب پرنسپل تھے اور کوئی فائل دیکھ رہے تھے۔ کپور صاحب کھڑے رہے۔ کاغذوں سے نظر اٹھاکر انہوں نے دیکھا تو کپور صاحب نے اپنا تعارف ایک بزرگ کے نام سے کرایا اور بتایا کہ ''میں بی اے ہونے کے ساتھ ساتھ اردو کا مزاح نگار بھی ہوں‘‘۔ پطرس صاحب نے جواب دیا ''اچھا! اگر یہ بات ہے تو آپ دو کرسیوں پر تشریف رکھیں‘‘۔ شاہد خاقان عباسی کے بارے میں میرے ذہن میں پطرس کا وہی جملہ آ رہا ہے۔ ان کی شخصیت میں بھی ایک ہی امتیازی وصف دکھائی دیا کہ ''وزرات عظمیٰ کی بنا پر تو نہیں البتہ شخصیت دیکھ کر انہیں دو کرسیوں پر بیٹھنے کی دعوت دی جا سکتی ہے‘‘۔
آج وہ جس طرح سیالکوٹ جانے والی موٹروے کی خوبیاں بیان فرما رہے تھے‘ انہیں سن کر یوں لگا جیسے آج ہی موٹر وے پر سفر کرکے سیالکوٹ پہنچے ہیں۔ بیچارے جس طرح اپنے ''وزیراعظم‘‘ کی مدح و ثنا میں بے تحاشا زور خطابت کا مظاہرہ کر رہے تھے‘ میرا خیال ہے کہ ان کی زندگی میں سپریم کورٹ کے جج صاحبان سے زیادہ‘ اگر کسی نے میاں نواز شریف کے مقام و مرتبے کو پہچانا ‘ وہ صرف عباسی ہی ہو سکتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے دنیا میں جس طرح میاں نواز شریف کی شہرت‘ اہمیت اور قیادت پر روشنی ڈالی‘ نہ تو ایسے کسی پاکستانی کو اپنے لیڈر کی مدح و سرا کرتا ہوا دیکھا ہے‘ اور نہ ہی آئندہ ملازمت کے لئے اعلیٰ عہدے کی استدعاکے لئے ایسی عرضی لکھی ہوگی اور نہ ہی مختصر ترین قصیدہ لکھا ہو گا۔ سچی بات یہ ہے کہ آئندہ انتخابات کے بعد اگر مسلم لیگ (ن) جیت گئی تو خود میاں صاحب اس مخمصے میں پڑ جائیں گے کہ پارٹی کی طرف سے وزرات عظمیٰ کے لئے خود وزیراعظم بننا پسند کریں یا شاہد خاقان عباسی کو بنائیں۔ میاں صاحب اپنی تعریف کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں لیکن عباسی صاحب کی زبانی اپنی مدح و سرا سن کر ضرور خجالت محسوس کر رہے ہوں گے۔ بعض اوقات قدرت تفریح طبع کے موڈ میں ہو تو میاں صاحب جیسی شخصیت کو بھی وزرات عظمیٰ عطا کر دی جاتی ہے لیکن خود میاں صاحب کے انتخاب پر اردو کے طالب علم سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ غالب اور ذوق کے مابین قصیدہ نگاری کا جو تاریخی مقابلہ رہا‘ ان دونوں کے بارے میں استاد ٹائپ کے لوگ ضرور چکر میں پڑ جاتے ہوں گے؛ البتہ صاحبان ذوق سمجھتے ہیں کہ غالب بہرحال غالب ہے لیکن غالب نے بھی تمام تر طغیانئ طبع کے باوجود‘ ایسا عمدہ انتخاب کبھی نہیں کیا ہو گا‘ جیسا کہ نوازشریف نے کیا۔
اب میں اپنی فہم کے مطابق پاکستان کے اس عظیم سیاست دان کو خراج عقیدت پیش کرنے کی جسارت کروں گا۔ ہر چند نوازشریف کی نگاہ انتخاب کا مقابلہ کرنا دشوار ہے لیکن مردم شناسی کے فن میں میاں صاحب سب پر سبقت لے گئے۔ برصغیر کی تاریخ میں ایسا مردم شناس کبھی پیدا نہیں ہوا‘ جیسا میاں نواز شریف نے اپنی جانشینی کے لئے منتخب کیا۔ کون سا سیاست دان اور مردم شناس‘ پاکستانی سیاست میں ڈھونڈا جا سکتا ہے؟ جو نواز شریف نے ''تو چل میں آیا‘‘ کی طرز پرچُنا ہے۔ 
اب میں'' قائم مقام‘‘ وزیراعظم کی چند حالیہ تقاریر کو یاد کرتا ہوں تو پھر یاد ہی کرتا رہتا ہوں۔ مسلم لیگ (ن) میں کون ایسا مائی کا لعل ہے؟ جسے نواز شریف اپنی کرسی پر بیٹھنے کا حکم دیں اور وہ اپنے محسن کی قصیدہ گوئی میں پوری کائنات سے الفاظ کا اس سے بہتر استعمال کر کے دکھا سکے جیسا شاہد خاقان نے کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ جناب نواز شریف نے جیسی سڑکیں بنائی ہیں‘ ان کی تاریخ میںمثال نہیں ملتی۔ شیر شاہ سوری نے ایک سڑک بنائی تھی لیکن میاں صاحب کے مقابلے میں سڑک بنانے والا دنیا میں ابھی تک پیدا نہیں ہوا۔ یہ کارنامہ نواز شریف صاحب نے انجام دیا ہے۔ دنیا میں نواز شریف صاحب سے پہلے لوگ روشنی کے لئے چراغ جلایا کرتے تھے۔ اب دیکھئے چاروں طرف بجلی چمک رہی ہے۔ جب چراغوں کی نہیں چمکتی تو آسمان سے چمک پڑتی ہے۔ ملک میں گیس کا قحط تھا لیکن ہمارے قومی رہنما نے اپنے محسن قوم کے ساتھ مل کر قطر سے گیس خریدنے کا لامحدود معاہدہ کیا۔ د نیا میں کوئی ملک ایسا نہیں‘ جس نے یہ گیس ہم سے زیادہ نرخوں پر خریدی ہو۔ ہم نے سب سے بڑھ کر بولی لگائی اور تاریخ عالم کے سب سے زیادہ قیمت ادا کرنے والے سیاست دان قرار پائے۔ اس کارنامے پر جناب نواز شریف دنیا میں امتیازی مقام حاصل کریں گے۔ وہ ہمارے چنے ہوئے لیڈر ہیں۔ انہیں پورے ملک نے وزیراعظم بنایا۔ انہوں نے مجھے وزیراعظم بنایا۔ اس سے زیادہ خوش قسمتی کس کی ہو سکتی ہے؟ شاہد خاقان عباسی ہمارے ملک کے وزیراعظم بنے۔ ہم سے زیادہ خوش قسمتی کس کی ہو سکتی ہے؟ مینار پاکستان کا قد شاہد خاقان عباسی سے زیادہ ہے۔ مینار پاکستان سے زیادہ کس کی خوش قسمتی ہو سکتی ہے؟ آخر میں موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا ایک مقولہ ''سیاست کے فیصلے عدالتوں میں نہیں ہوتے‘‘۔ سیاست کے فیصلے تھانوںمیں ہوتے ہیں۔ امریکی صدر‘ ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹاور میں آگ لگ گئی۔ یہ نسخہ ہم نے بہت پہلے آزما لیا تھا۔ ہم نے ایل ڈی اے ٹاور کو آ گ لگائی۔ بڑا لیڈر کون ہے؟ ٹرمپ نے اپنے ٹاور کو آگ لگائی اور ہمارے عظیم لیڈر نے ایل ڈی اے ٹاور کو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں