روزنامہ ''ڈھاکہ ٹربیون‘‘ نے شیخ مجیب الرحمن کے بارے میں نواز شریف کے تبصرے پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان پر غداری کا الزام مسترد کیا تو آمریتوں کے پروردہ سیاسی اور صحافتی عناصر نے نواز شریف کوہدف تنقید بنا لیا۔ سابق وزیراعظم‘ میاںنواز شریف نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر تبصرہ کرتے ہوئے‘ شیخ مجیب الرحمن کے کردار کا ذکر کیا اور کہا کہ ''وہ علیحدگی پسند نہیں بلکہ اتحاد کے حامی تھے۔ فوجی حکومتوں نے ملک کے اکثریتی عوام کے رہنما‘ شیخ مجیب الرحمن کو علیحدگی پسند بنا کرانہیں علیحدگی کی طرف دھکیلا‘‘۔ ردعمل میں پاکستان کے مختلف سیاسی رہنمائوں نے میاں صاحب پر ایک ہی زبان میں تنقید کرتے ہوئے‘ شیخ مجیب کی غداری پر اصرار کیا۔ میاں صاحب جب بھی کوئی ایسا بیان دیتے ہیں تو ایک پوری پلٹن‘ پنجے جھاڑ کر ان کے پیچھے پڑ جاتی ہے۔ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہمیں حقائق کو سمجھنے کی عادت نہیں۔ آمرانہ حکومتوں کے تصورات کے سانچے میں ڈھلے خیالات‘ سکہ رائج الوقت بن جاتے ہیں۔ یہی سکہ حکومتی محکموں میں ڈھلتا ہے اور یہی سکہ آزادی سے محروم میڈیا کے چھاپہ خانوں میں ڈھلتا ہے اور حکومتی پابندیوں میں جکڑی اپوزیشن کی سیاسی ٹکسال سے بھی ڈھل کر نکلتا ہے۔ جب میں مختلف آمریتوں کی مشینری میں ڈھالے گئے خیالات و تصورات کو مسلسل چھائی ہوئی دھند کے غبار میں جھانک کر دیکھتا ہوں تو نگاہوں پر زور ڈال کے بھی‘ مجھے حقائق صاف دکھائی نہیں دیتے۔ پوری ریاستی مشینری سوائے دھند کے اس میں چھپی کسی بھی چیز کو دیکھنے کی اجازت نہیں دیتی۔
آزادیٔ اظہار پر پابندی پہلے مارشل لا کے دوران ہی عائد کر دی گئی تھی۔ اقتدار کے چھاپے خانے میں نئی نئی پابندیاں تیار کرکے نافذ کی جاتیں۔ ہر وہ جماعت یا فرد جو سیاسی معاملات میں آزادیٔ اظہار کرتا‘ اسے مختلف طریقوں سے گھیرنے کی کوشش کی جاتی۔ کسی کو خرید لیا جاتا۔ کسی کو ڈرایا جاتا۔ کسی کو مختلف قوانین کے تحت چند ماہ کے لئے نظر بند کر دیا جاتا۔ اگر اس کے خیالات پھر بھی زنجیروں سے نکلنے کی کشمکش میں دکھائی دیتے تو سزا میں مزید اضافہ کر دیا جاتا۔ ایوب خان نے میڈیا پر بطور خاص پابندیاں لگانے کا اہتمام کیا۔ اس کے باوجود اخبارت کسی نہ کسی طریقے سے اپنی رائے کا اظہار کر تے تو انہیں سنسر کی زنجیروں میں جکڑ لیا جاتا۔ ایسے حالات میں ہم کیا کرتے تھے؟ اس کی ایک مثال پیش کروں گا۔ ضیاء الحق کے زمانے میں لاہور اور اسلام آباد سے میں اپنا روزنامہ شائع کرتا تھا۔ ظاہر ہے کسی بھی فوجی آمریت میں میری تحریروں کو بغیر تکلیف کے سرکاری محکموں میں نہیں پڑھا جاتا تھا۔ میں مختلف طریقوں سے آمروں کی خبر لیتا اور وہ میری خبریں بگاڑتے رہتے۔ اس صورتحال سے تنگ آ کر ایک دن میں نے اداریے کی ساری جگہ پر جوتوں کی تصویریں لگا دیں‘ جس کی سرخی یہ تھی''جوتے تمہارے منتظر ہیں‘‘۔ قارئین ہی نہیں حکومتی عہدیداروں نے بھی اس پیغام کو آسانی سے پڑھ لیا اور سب سے زیادہ آسانی سے جنرل ضیاء الحق نے پڑھا۔ دوپہر تک میری گرفتاری کے احکامات آ چکے تھے۔ پیپلز پارٹی کے سرکردہ لیڈر‘ پروفیسر نذیر کا راولپنڈی میں ایک سکول تھا۔ انہوں نے وہیں پر میرا پلنگ لگوا دیا‘جو کافی دنوں تک لگا رہا۔ صحافتی تنظیموں اور لیڈروں کی کوششوں سے جنرل صاحب کا غصہ تو پنکچر ہو گیا لیکن گرفتاری کا خطرہ ہر وقت سر پر منڈلاتا رہتا۔
یہ چھوٹا سا واقعہ ہے۔ میں مغربی پاکستان کے اندر رہتا تھا۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مشرقی پاکستان والوں کا کیا حال ہوتا ہو گا؟ وہاں کوئی طالب علم لیڈر نعرہ لگاتا تو اسے نہ صرف دبوچ کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا بلکہ بسا اوقات کئی کئی مہینے جیل میں قیام کرنا پڑتا۔ آمرانہ حکومتوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے بنگالیوں کو پہلے کراچی‘ بعد میں اسلام آباد کی طرف سے خوب سبق دیا جاتا۔ یہی حال مشرقی پاکستان کی اکثریتی آبادی کا تھا۔ اگر ''ون مین ون ووٹ‘‘ کے اصول پر جمہوریت چلائی جاتی تو مرکز اور بعد میں وفاق پر ہمیشہ بنگالیوں کی حکومت رہتی۔ چشمِ تصور سے ملک کی اکثریتی آبادی کو ایوانِ اقتدار کی طرف سے کم
تر سمجھا ہی نہیں بلکہ حقارت کے ساتھ دیکھا بھی جاتا، تو کون اس رشتے کو ''اچھوتانہ‘‘ نظر کے سوا اور کسی طرح دیکھ سکتا تھا؟ پاکستان میں جتنے بھی آئین بنے‘ ان میں بنگالیوں کو ہمیشہ دوسرے درجے کا شہری سمجھا گیا۔ اس مصیبت سے تنگ آکر بنگالی لیڈروں نے مغربی پاکستان کے لیڈروں کو اپنا فارمولا منوایا۔ پہلے مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو ایک صوبے میں بدلا اور پھر قومی اتحاد کے نام پر دونوں کو برابر کر دیا گیا۔ حقیقت میں مشرقی پاکستان کی آبادی 52 فیصد تھی اور مغربی پاکستان کی 48 فیصد۔ اس کا نام ون یونٹ رکھا گیا۔ ستم یہ ہوا کہ مغربی پاکستان کی قیادت نے بنگالی قیادت کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنی 52 فیصد آبادی کو‘ مغربی پاکستان کی 48 فیصد آبادی کے مساوی تسلیم کرے۔ قومی اسمبلی میں دونوں صوبوں میں برابری منوا کر مشرقی پاکستانیوں کی زیادہ آبادی کو مغربی پاکستان کے مساوی کر دیا گیا۔ ذرا سوچئے کہ جو ملک دونوں صوبوں میں ''ایک فرد ایک ووٹ‘‘ کے اصول پر قائم کیا گیا ہو اور بعد میں بڑے صوبے کو چھوٹے کے مساوی قرار دے کر وہاں کے عوام کو ایوانِ اقتدار سے باہر کر دیا گیا ہو تو اکثریت کہاں تک صبر کر سکتی ہے؟
شیخ مجیب کی غداری یہی تھی کہ اپنے صوبے کی اکثریت کو‘ چھوٹے صوبے کے سامنے‘ ایوانِ اقتدار میں اکثریت حاصل کرنے سے ہمیشہ کے لئے روک دیا جائے۔ بنگالیوں کی نظر میں ان کا مستقبل کیسا ہوتا؟ پاکستان کا دارالحکومت بنگالیوں سے پوچھے بغیر اسلام آباد میں قائم کر دیا گیا اوران کے احتجا ج پر کہا گیا کہ آپ پاکستان کا ایک اور دارالحکومت‘ مشرقی پاکستان میں قائم کر لیں۔ وفاقی حکومت‘1958ء سے لے کر 1971ء تک صرف مغربی پاکستانیوں کے قبضے میں ر ہی۔ 1970ء کے انتخابات میں بنگالیوں کا خیال تھا کہ اب پاکستان کی حکومت‘ بھاری اکثریت سے جمہوری اصول کے تحت‘ عوامی لیگ کی پاس ہو گی۔ مغربی پاکستان کی کئی جماعتیں عوامی لیگ کا ساتھ دینے پر تیار ہو گئیں۔ گویا جمہوری اصول کے تحت وزارتِ عظمی پر شیخ مجیب کا حق تھا مگر مغربی پاکستان کے حکمران طبقوں اور فوجی حکمرانوں نے شیخ مجیب الرحمن کو حکومت بنانے سے روک دیا۔ مشرقی پاکستان پر چڑھائی کر دی گئی۔ اب آپ خود بتا ئیں کہ غدار کون تھا؟ شیخ مجیب یا مغربی پاکستان کے حکمران۔