"NNC" (space) message & send to 7575

طوفان تھم رہا ہے

امریکی صدر‘ ڈونلڈ ٹرمپ کے ہنگامی ٹویٹس نے پاک امریکہ تعلقات میں اچانک تلاطم پیدا کر دیا۔ حقیقت یہ تھی کہ کانگرس میں اس موضوع پر اتفاق رائے موجود نہیں تھا۔ سب کو معلوم تھا کہ صدر ٹرمپ نے قبل از وقت ٹویٹ کر کے بلاوجہ سیاسی ہنگامہ برپا کیا مگر اب صورت حال بدل گئی ہے۔ اس وقت امریکی دفتر خارجہ ابتدائی تبادلۂ خیال میں مصروف ہے۔ پاکستان کی امداد کُلی طور پر بند کرنے کا خیال فیصلہ ساز اداروں میں مقبول نہیں رہا۔ پاک امریکہ تعلقات میں جو تلاطلم پیدا ہوا تھا‘ اب اس کی لہریں آہستگی سے معمول پر آ رہی ہیں۔ اس سلسلے میں کیٹی بوولیمز کا مضمون پیش خدمت ہے۔
''وائٹ ہائوس اس بِل کے لیے ووٹ حاصل کرنے کے لیے کمر بستہ تھا۔ یہ بل ایک ایسے پروگرام کو توسیع دیتا تھا جس کے بارے میں سینئر افسران کا کہنا ہے کہ یہ امریکہ کو دہشت گرد حملوں سے بچانے کے لئے ضروری ہے۔ برائے نام تبدیلیوں کے ساتھ اس بل پر نظرِ ثانی گزشتہ ایک سال سے انٹیلی جنس حلقوں کی اولین ترجیح تھی۔ پھرصدر ٹرمپ نے ٹویٹ کی کہ ''آج ہائوس متنازع فیسا ایکٹ پر رائے شماری کرنے جا رہا ہے۔ اس ایکٹ کے لیے سابق انتظامیہ اور دیگر نے مشکوک اور ناقابلِ اعتبار معلومات استعمال کیں تاکہ ٹرمپ کی مہم کا منفی تاثر ابھار کر اسے ناکام بنایا جا سکے‘‘۔ اچانک کیپٹل ہِل میں افراتفری کا سا سماں دکھائی دیا‘ حالانکہ ایک سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی تھی۔ نگرانی کے پروگرام کی بحالی کے لیے انتظامیہ کی طرف سے کئی ماہ تک کی جانے و الی لابنگ کے بعد ایسا لگا جیسے صدر خود ایک ایسی ترمیم کی حمایت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال رہے ہیں‘ جو رازداری میں جھانکنے کے حکومتی اختیارکو محدود کرتی ہے۔ اس ترمیم کے حامیوں نے فوراً تجویز کی حمایت کے لیے ٹویٹ کرنا شروع کر دیے۔ ڈیموکریٹس نے بِل کو ناکام بنانے کی خاطر ایک تھکی ہوئی کوشش کی۔ ووٹ دینے کے لئے آنے والے ممبران اپنے ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہتے''نو ڈیل‘‘۔
ہائوس انٹیلی جنس کمیٹی کے ایک رکن‘ ٹام رونی کا کہنا تھا ''ہو سکتا ہے کہ کچھ افراد تذبذب کا شکار ہوں اور میں اُنہیں قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ جب سے یہ ٹویٹ سامنے آئی ہے‘ میرے کچھ دوستوں نے ٹیکسٹ پیغامات بھجوائے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ ووٹ نہیں دے رہے ہیں‘‘۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد صدر ٹرمپ نے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے ایک اور ٹویٹ کیا۔ اُس وقت ری پبلکنز بند دروازوں کے پیچھے بِل پر بھرپور بحث کر رہے تھے۔ ہائوس فریڈم کاکس (House 
Freedom Caucus) اور پرائیویسی پالیسی پر تحفظات رکھنے والے نمائندے ‘مشی گن سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ‘ جسٹن آمیش کی تجویزکی مخالفت کر رہے تھے۔ یہ تجویز کہتی تھی کہ اس پروگرام کو کسی تبدیلی کے بغیر نافذ کر دیا جائے۔ اوکلا سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن نمائندے ٹام کول کا کہنا تھا ''مجھے ایک ایک منٹ کی تفصیلات موصول ہو رہی تھیں۔ لوگ اس پر ہنس رہے تھے۔ اس میں پریس نمائندگان کے لیے بہت کچھ تھا‘‘۔
دوسرے ٹویٹ میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ اس بل کی حمایت میں ہیں لیکن وہ ترمیم کے حق میں نہیں۔ اُن کا خیال تھا کہ وہ علیحدہ طور پران قوانین کو تبدیل کرنے کے لیے ایکشن لے رہے ہیں جو وائر ٹیپ پر پکڑے جانے والے افسران کو بے نقاب کرتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں کہا ''انہوں نے افسران کو بے نقاب کرنے کے ایشو کوحل کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں لیکن آج کی رائے شماری غیر ملکی افراد کی نگرانی کرنے کے لیے ہے‘‘۔ وائٹ ہائوس کو پہلے سے ہی توقع تھی کہ ترمیم کے مسئلے پر گھمسان کا رن پڑے گا۔ انتظامیہ جس تجویز کی مخالفت کررہی تھی‘ اسے سابق صدر اوباما کے دور میں دو مرتبہ ہائوس نے منظورکیا تھا۔ آخرکار ہائوس نے چند ایک تبدیلیوں کے ساتھ پروگرام کو پیش کیا۔ اگرچہ کچھ ممبران کو سخت مقابلے کی توقع تھی لیکن متنازع ترمیم پچاس ووٹوں کے فرق سے مسترد کر دی گئی۔ پرائیویسی اور نگرانی کے ایشو پر ہونے و الی جنگ میں ووٹوں کی تعداد بہت اہمیت اختیار کر گئی۔ اس نے اُن کی امیدوں پر پانی پھیر دیا جو حکومت کی طاقت محدود کرنے کی کوشش میں تھے۔ گزشتہ سال دو ایشوز سیاسی طور پر باہم مربوط ہوتے دکھائی دیئے جب صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ اوباما انتظامیہ نے ٹرمپ ٹاور میں ہونے والی گفتگو ریکارڈ کی‘ جو انتخابی مہم کے متعلق تھی۔ ر یپبلکنز کو بہت دیر سے شک تھا کہ سابق مشیر برائے نیشنل سکیورٹی‘ مائیکل فلائن 702 سرویلینس میں پکڑے گئے تھے۔ انہیں اوباما انتظامیہ کے افسران نے نامناسب طور پر بے نقاب کیا تھا۔ ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ کا کہنا تھا ''فیسا سے متعلق کچھ ایشوز ہیں لیکن ان کا 702 سے کوئی تعلق نہیں۔ انہیں صرف مخالفین اچھال رہے ہیں۔ یہ صرف پیشہ ورانہ طور پر ٹیکنکل بحث تھی لیکن اسے سیاست میں الجھا دیا گیا ہے‘‘۔ جم جورڈن کا کہنا تھا‘ میرا خیال ہے کہ ٹرمپ کا ذہن کام رہا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تمام ثبوت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایف بی آئی نے بہت منظم طریقے سے ان کا تعاقب کیا۔ چنانچہ اُنہیں چوتھی ترمیم کے تمام مندرجات کے بارے میں تشویش لاحق ہے‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں