"NNC" (space) message & send to 7575

زینب کے مجرموں کا جرم

ہر گزرتے دن کے ساتھ‘ معصوم بچی زینب کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم اور پھر اس کے قتل نے سارے پاکستان ہی نہیں‘ دنیا کے بیشتر ملکوں کے شہریوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ عمر ریاض صاحب نے اس سانحے پر انگریزی میں ایک کالم لکھا۔ اہل قصور اور پاکستان کے شہریوں کے دلوں کے دکھ ابھی تک تازہ ہیں۔ یاد دہانی کے ذریعے میں ان کے دکھ ایک بار پھر تازہ کر رہا ہوں۔ یہ تازہ ہی رہنے چاہئیں‘ جب تک بھر نہیں جاتے۔کالم پیش خدمت ہے۔
''بچے کی لاش سڑک کے قریب جنگل سے ملی تھی۔ مسخ شدہ لاش کے اعضا بریدہ اور کھوپڑی ٹوٹی ہوئی تھی۔ والدین شدید صدمے کے عالم میں تھے۔ ملک بھر میں غم و غصے کی فضا طاری تھی۔ ہر کوئی قاتل کو انصاف کے کٹہرے میں دیکھنا چاہتا تھا۔ قاتل کو ڈھونڈنا ملکی تاریخ کی سب سے بڑی تلاش تھی۔ اسے بے نقاب کرنے اور گرفتار کرنے کے لیے تمام ریاستی وسائل استعمال کیے گئے۔ سینکڑوں پولیس افسروں اور تفتیش کاروں نے قاتل کا سراغ لگانے کے لیے مل کر کام کیا۔ ہزاروں مشتبہ افراد سے تفتیش کی۔ شہادتوں کو کھنگالا۔ پولیس کی کارکردگی میں پیشہ ورانہ تفتیش کی مہارت کا فقدان دکھائی دیا۔ اغوا اور قتل کی وارداتوں کی روک تھام میں ناکامی پر ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ قاتل کی تلاش کئی ماہ پر محیط تھی۔ آخر کار قاتل پکڑا گیا۔
یہ تفصیل زینب قتل کیس سے بہت حد تک ملتی ہے؛ تاہم ہر دو جرائم کا زمانہ اور سر زمین ایک سی نہیں۔ یہ مختلف ممالک میں‘ مختلف اوقات میں پیش آنے والے واقعات ہیں۔ مذکورہ قتل 75 سال پہلے 1932ء میں امریکہ میں ہوا تھا۔ مقتول بچے چارلس لنڈبرے جونیئر کی عمر 20 ماہ تھی۔ اسے گھر سے اغوا کرکے قتل کیا گیا۔ قاتل نے اس کی لاش دبا دی۔ اس قتل نے پورے ملک کو اُسی طرح متاثر کیا‘ جس طرح آج زینب کے قتل نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ چارلس جونیئر کے قاتل پر مقدمہ چلا اور اُسے کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ اس کیس کی وجہ سے امریکی کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات کا سلسلہ شروع ہوا۔ عوام کو اپنے نظام کی اس خامی کا پتا چلا کہ اغوا بذاتِ خود بڑا جرم نہیں اور نہ ہی اس پر کوئی سنگین سزا رکھی گئی ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ مقامی پولیس اور ایف بی آئی کے پاس جرائم کی تحقیقات کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے ۔ اس کی وجہ سے نئی قانون سازی کی گئی۔ سائنسی پیش رفت سے استفادہ کیا گیا۔ فرانزک لیبارٹریاں قائم کی گئیں۔ اہل کاروں کو جدید ٹریننگ دی گئی اور یوں ایک جدید پولیس سسٹم وجود میں آ گیا۔
کیا زینب قتل کیس بھی ہمارے نظام میں تبدیلیاں لائے گا؟اگر حالیہ تاریخ سے رہنمائی لی جائے تو جواب نفی میں ہے۔ 2001ء میں ایک جنونی قاتل‘ جاوید اقبال سامنے آیا۔ اُس نے 6 سے16 سال کی عمر کے 100 بچوں کے قتل کا اعتراف کیا تھا۔ بچوں کی لاشوں کو تیزاب میں جلایا۔ جس ماہرِ نفسیات نے دوران حراست انٹرویو لیا‘ ان کا کہنا ہے کہ جاوید اقبال کے مطابق‘ اُس کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد ایک سو سے کہیں زیادہ تھی۔ یہ ایک سو وہ تھے جنہیں وہ یاد کر سکا تھا۔ اس واقعے کا المناک پہلو یہ تھا کہ اُس نے یہ تمام قتل چھ ماہ کے دوران کیے تھے۔ اس کے باوجود کسی نے نوٹس نہ لیا۔ علم اس وقت ہوا جب اُس نے خود پریس کو اطلاع دی۔ اس کے بعد جاوید اقبال کی تلاش شروع کی گئی لیکن گرفتار نہ کیا جا سکا۔ اس نے خود ہی لاہور میں ایک اخبار کے دفتر میں پہنچ کر خود کو ظاہر کر دیا۔ شہری اتنے مشتعل تھے کہ ہزاروںافراد وہاں پہنچ گئے۔ پولیس پر انہیںاعتماد نہیں تھا۔ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر تلے ہوئے تھے۔ چنانچہ حالات کو قابو میں لانے کے لیے فوج بلانا پڑی۔
تمام تر اشتعال اور غم کی شدت کے باوجود‘ جاوید اقبال کیس کے نتائج مایوس کن رہے۔ سب سے پہلے تو پولیس کی غیر پیشہ ورانہ تفتیش سامنے آئی۔ جاوید اقبال کے دستِ راست نے پولیس کی حراست میں چھت سے کود کر خود کشی کر لی۔ مقدمہ بھی بہتر انداز میں پیش نہ کیا جا سکا۔ فیصلے میں لکھا گیا کہ جاوید اقبال کے ایک سو ٹکڑے کر دیئے جائیں۔ آخرکار وہ اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ کوٹ لکھپت جیل میں مردہ پایا گیا اور یوں یہ کیس بند ہو گیا۔ جہاں تک بچوں کے تحفظ‘ قانونی اصلاحات اور جسٹس سسٹم میں بہتری کا تعلق ہے تو ''تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ‘‘۔ ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ روح فرسا واقعات بھی ہمیں جھنجھوڑنے میں ناکام رہے۔ قانون نافذ کرنے‘ تحفظ فراہم کرنے اور سزا دینے والی تمام ایجنسیوں کے 'معمولات‘ میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی۔
سنبل کیس ایک اور حالیہ مثال ہے۔ مغلپورہ لاہور سے ایک پانچ سالہ بچی کو اغوا کرکے جنسی تشدد کیا گیا۔ مجرم‘ بچی کو نازک حالت میں گنگارام ہسپتال کے باہر چھوڑ کر چلا گیا۔ سی سی ٹی وی کی ویڈیو نے یہ منظر ریکارڈ کر لیا۔ اس پر ملک گیر اشتعال پھیلا۔ مجرم کی تلاش شروع ہوئی۔ اربابِ اختیار نے نوٹس لیا۔ کئی مشتبہ افراد سے تفتیش کی گئی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ ہو سکتا ہے کہ سنبل کیس حل کر لیا گیا ہو لیکن کیا اس کی وجہ سے زینب محفوظ ہوئی؟ اس کا جواب ایک مرتبہ پھر نفی میں ہے۔ جاوید اقبال کے اعتراف سے لے کر آج تک ہم نے کتنا فاصلہ طے کیا؟ ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے کیا اصلاحات متعارف کرائی گئیں؟ کون سی پیشہ ورانہ مہارتوںکو بروئے کار لایا گیا؟ نظام کی بہتری کے لیے کیا اقدامات کئے؟ جواب صفر۔ امید کی جانی چاہیے کہ زنیب کیس حل ہو گا اور قاتل اپنے منطقی انجام تک پہنچے گا لیکن کیا اس سے عوام کا کریمنل جسٹس سسٹم پر اعتماد بحال ہو جائے گا؟ نہیں۔
ہمیںچارلس جونیئر قتل کیس اور اس کے نتائج سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے۔ اس کیس نے امریکہ میں تمام تصورات کو بدل کر رکھ دیا کہ بچوں سے متعلق جرائم‘ خاص طور پر جسمانی تشدد کی روک تھام کیسے کرنا ہے؟ اس کے لیے سائنٹیفک لیب قائم کی گئیں۔ مجرم کے خاکے سے لے کر ہینڈ رائٹنگ کے تجزیے اور لکڑی تک کے ماہرین کو انگیج کیا گیا۔ قاتل نے چارلس کو اغوا کرنے کے لیے لکڑی کی سیڑھی استعمال کی تھی۔ ایف بی آئی نے عادات و اطوار کی جانچ کرنے والا یونٹ قائم کیا۔ قاتل کا پروفائل اس مہارت سے تیار کیا کہ گرفتاری سے قبل ہی اس کی عادات اور نسل کا درست تعین کر لیا گیا۔ ہم ''جنونی‘ نفسیاتی مریض اور سیریل کلر‘‘ جیسے الفاظ سنتے ہیں لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ماہرین دستیاب شہادتوں سے مجرموں کی پروفائل مرتب کرنے سے قاصر ہیں۔ چاہے کراچی میں چاقو حملوں سے خواتین کو زخمی کرنے والا پراسرار حملہ آور ہو یا زینب قتل میں ملوث مجرم۔ ہر جگہ سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے لیکن بے سود۔ ایک تو ان کا معیاربہت پست ہے ا ور پھر مواد کی جانچ کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں۔ اگر کی جانے والی تفتیش غیر معیاری ہوتی ہے تو جسٹس سسٹم بھی کچھ بہتر نہیں۔ اس کی وجہ رہنمائی کی کمی نہیں بلکہ ارادوں کا فقدان ہے۔ سپریم کورٹ نے ''سلمان اکرم راجہ و دیگر بنام حکومت پنجاب (PL J 2013 SC 107)‘‘ میں تفصیلی رہنمائی جاری کرتے ہوئے ڈی این اے اور دیگر سائنسی شہادتوں کی گواہی کو شامل کیا ہے۔ نیز ظلم کا شکار ہونے والے خاندان کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے راضی نامہ کرنے کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اقدامات اور حل‘ عارضی اور سطحی ہوتے ہیں۔ ایسے کیسز سے ''نمٹنے‘‘ کا غالباً سب سے آسان راستہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا انسداد ِدہشت گردی ایکٹ کے تحت ٹرائل کیا جائے۔ اس کے ذریعے ہو سکتا ہے کہ ایک مجرم کو سزا مل جائے لیکن بچوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی اور قتل پر جسٹس سسٹم کی فعالیت ایک ڈیٹرنس بن کر سامنے نہیں آتی۔ یہ اس وقت ہو گا جب میڈیا کا شور و غل تھم جانے کے بعد بھی ایسے کیسز کاحل ہماری ترجیحات کے دفتر میں اوّل نمبر پرموجود رہے گا‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں