عمران علی قصوری ایک راست گو مجرم ہے۔ اس نے جو بھی جرم کیا وہ پُر رونق گلیوں سے نکلتے ہوئے کوئی محفوظ مقام ڈھونڈتا اور اپنا منہ کالا کرتا رہا۔ وہ سیاہ رو خود قانون کے سامنے پیش نہیں ہوا۔ آخر کار معصوم زینب کے قاتل کاسراغ لگا لیا گیا۔ پنجاب حکومت نے فوراً اپنے افسروں کو قصور بھیجا اور زینب کے والد‘ امین انصاری کو کار میں بٹھا کر لاہور لے آئے۔ وہاں ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ پنجاب کابینہ کے ایک چست و چالاک رکن نے امین انصاری کو سرگوشیوں میں ہدایات دیں کہ وہ اپنی زبان بند رکھیں۔ اس خبر کا انکشاف باس بنفس نفیس کریں گے‘ جو ساری دنیا میں پھیل چکی تھی۔ لوگوں نے دیکھا کہ خادم اعلیٰ ‘ امین انصاری کو اپنے ساتھ لئے پریس بریفنگ کے لگے لگائے سیٹ پر‘ افسروں کے جھرمٹ میں اپنی کرسی پر تشریف فرما ہوئے۔ انہوں نے مرحومہ زینب کے زخم خوردہ باپ کے دل پر ایک اور چوٹ لگائی۔ شاید بدنصیب باپ کچھ بتانا چاہتا تھا لیکن حاضرین اور دنیا بھر کے ٹی وی ناظرین دیکھ رہے تھے کہ خادم اعلیٰ نے پہلے تو انصاری صاحب کے سامنے سے مائیک ہٹانے کی کوشش کی۔ تاروںمیں پھنسے ہونے کی وجہ سے‘ مائیک فوراً نہ اٹھائے جا سکے اور خادم اعلیٰ نے جھنجھلا کر دونوں مائیکس کے سوئچ آف کر دئیے۔ اردگرد مورچہ بند خدام نے انصاری صاحب کو بات کرنے کا موقع نہیں دیا۔ یہ اعلان خادم اعلیٰ نے بنفس نفیس کیا اور امین انصاری صاحب جس دکھ کو اپنے سینے میں لئے بیٹھے تھے‘ وہ بھڑک اٹھا۔ انہوں نے رنج و غم کے شعلوں کو آنسوئوں سے بجھایا اور اپنے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر گہرے غم میں ڈوب گئے۔
خادم اعلیٰ جو دردمندی اور غریب پروری میں شہرت رکھتے ہیں، انہوں نے زینب کے قاتل کے جرم پر ہلکی سی روشنی ڈال کر‘ اپنی اس جدوجہد اور اہلکاروں کی شب و روز محنت کی تفصیل بتاتے ہوئے‘ غم گساروں اور حاضرین کو بتایا کہ کس طرح انہوں نے مختلف ماہرین سے قاتل کی تلاش میں بھاگ دوڑ کرائی؟ اور کیسے انہوں نے اپنا آرام اور نیندیں حرام کر کے ایک ایک لمحے کی خبر رکھی؟ اور کس طرح خدا کی رحمت سے ان کی جستجو رنگ لائی؟ انہی دنوں مردان میں ایک بچی عاصمہ گم ہو گئی اور ہمارے خادم اعلیٰ:۔
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
کو لئے ہوئے عمران خان کی طرف متوجہ ہوئے۔ خادم اعلیٰ نے جتنی مشینری‘ جتنے ماہرین اور ایجنسیوں کی لامحدود خدمات کو استعمال کرتے ہوئے‘ زینب کے قاتل کو ڈھونڈ نکالا، فراخ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے ٹی وی پر دنیا بھر کے ناظرین کو یہ مژدہ سنایا کہ خادم اعلیٰ نے زینب کے والدین کو غم سے نکالنے کے لئے‘ جدید ایجادات سے بے تحاشا فائدہ اٹھاتے ہوئے مجرم کی تلاش کا فریضہ سر انجام دیا۔ اب خادم اعلیٰ اپنی ساری مشینری استعمال کر کے مردان کی بیٹی‘ عاصمہ کے قاتل کو ڈھونڈنے میں عمران خان کی مدد کریں گے۔ ان کی یہ فراخ دلی‘ اس وقت ساری دنیا میںعاصمہ کے قاتل کو تلاش کرے گی اور پھر خادم اعلیٰ خود مردان پہنچیں گے اور اہل مردان کو بتائیں گے کہ دیکھ لو میں نے چند ہی روز میں شب و روز محنت کر کے‘ زینب کے قاتل کو ڈھونڈ نکالا اور اب عاصمہ بیٹی کے قاتل کی تلاش میں مردان آنے کو تیار ہوں۔ خادم اعلیٰ کی یہ دردمندانہ پیش کش دنیا بھر کے ٹی وی ناظرین تک پہنچی۔ تمام ناظرین کی آنکھیں فرطِ غم سے بھیگ گئی ہوں گی اوراس پیشکش کو سن کر خادم کائنات‘ عمران خان بھی یہ پیش کش کرنے والے ہیں کہ الیکشن کے روز وہ ہر پولنگ سٹیشن پر‘ دو دو ووٹ خادم اعلیٰ کے ڈبوں میں ڈلوائیں گے اور احتیاطاً یہ اعلان کریں گے کہ جو ووٹ خادم اعلیٰ کو پیش کر رہا ہوں‘ وہ کہیں''مجھے کیوں نکالا‘‘ کے ڈبے میں نہ ڈال دئیے جائیں۔ ادھر سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس‘ عزت مآب میاں ثاقب نثار‘ عالمی سطح کے ایک سکوپ کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور غروب آفتاب کے بعد بھی شاید انتظار میں رہیں۔ زمین چوبیس گھنٹے گھومتی ہے۔ ان چوبیس گھنٹوں میں ہر وقت کہیں صبح ہوتی ہے اور کہیں شام۔ اس وقت بھی دنیا میں کہیں نہ کہیں صبح ہو رہی ہو گی۔ بینک کھلیں گے تو ڈاکٹر صاحب‘ قاتل عمران علی کے بینک اکائونٹ سامنے لے آئیں گے۔ جب ڈاکٹر شاہد مسعود اچانک کسی ڈوبتے سورج کے ساتھ ٹی وی پر نمودار ہوئے تو میں نے لکھا تھا ''اب ایسے چھاتہ بردار بھی میڈیا میں اتر آئے ہیں‘‘۔ میرا خیال ہے چیف جسٹس آف پاکستان‘ اینکر کی بھاگ دوڑ کے نتائج کا انتظار کریں گے۔ رہ گئے ریلوے کی دھجیاں اڑانے والے‘ خواجہ سعد رفیق۔ ملبے سے لوہے کے چنے نکال کر تحریک انصاف کے فواد چودھری کو پارسل بنا کر بھیجیں گے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پوری ریل ہی ڈیفنس کالونی میں فواد چودھری کے گھر بھیج دیں۔