"NNC" (space) message & send to 7575

اپنی تلاش

ادھر معروف اینکر‘ ڈاکٹر شاہد مسعود اپنے عالمی دعوے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز اینکرصاحب یوں چل رہے تھے جیسے ان کے پیروں کے نیچے زمین دھڑک رہی ہو۔ دوسری طرف سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عالمی سطح کے ایک سکوپ کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ شاید اب تک بیٹھے ہوں۔ زمین چوبیس گھنٹے گھومتی رہتی ہے۔ پتا نہیں ڈاکٹر صاحب نے کب دنیا بھر کے بینکوں کے کھاتوں سے سراغ رسانی کرکے ہم بے خبروں کے چاروں شانے چت کر دئیے؟ ہر کہانی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ میں بھی اسے ڈھونڈ رہا ہوں اور 27جنوری کی شام کو‘ دنیا بھر کے بینکوں کے خالی کھاتوں کے اداس چہرے دیکھ رہا ہوں۔ اینکر صاحب ٹی وی سکرین کو نہیں چھوڑ رہے۔ عزت مآب چیف جسٹس صاحب راستہ دیکھ رہے ہیں۔ سی این این نے چند روز پہلے ایک ایسے ہی کردار کی کہانی لکھی۔ لبیب ابراہیم عیسیٰ‘ عراقی جنگ کے دوران ایک حملے کی زد میں آ گیا۔ جان تو بچ گئی لیکن کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ رپورٹ ملاحظہ فرمائیے۔
''ڈیلاس فورٹ ورتھ انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر روکے گئے آخری شخص‘33سالہ عیسیٰ کا تعلق عراق سے تھا۔ وہ امریکی فوج کا سابق کنٹریکٹر تھا۔ لبیب ابراہیم عیسیٰ‘ عراق میں ایک خوفناک حملے کی زد میں آ گیا۔ جان تو بچ گئی لیکن کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ عیسیٰ کو مسلمانوں پر عائد سفری پابندیوں کی وجہ سے 15 گھنٹوں کے لیے روک لیا گیا۔ اسے لگتا تھا جیسے وہ درد سے مر جائے گا۔ اس کی امریکی فیملی کے افراد پریشان تھے کہ اب وہ ان سے کس طرح مل پائے گا؟ اس کا کہنا ہے کہ وہ آج سے ایک سال پہلے‘ 29 جنوری کو ائیر پورٹ پر موجود تھا جب مسلمانوں پر سفری پابندیاں لگا دی گئیں۔ ان ہنگامہ خیز ایام میں روکے گئے تمام افراد میں عیسیٰ ابراہیم کا کیس انتہائی ہمدردی کا مستحق تھا۔ یہ صورت حال باعث شرم تھی کیونکہ وہ امریکی فورسز کے لیے خدمات انجام دے رہا تھا۔ امریکہ کی خاطر زندگی بھر کے لیے معذور ہو جانے والے شخص کو‘ اسی ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ امریکی سکیورٹی کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنے والا اب ''سکیورٹی‘‘ کے نام پر روک لیا گیا۔ سفری پابندیوں کا پرجوش خیر مقدم کرنے والے صدر‘ ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی حب الوطنی اب کیا کہتی تھی؟ مذہبی آیات کا حوالہ دے کر صدر کے آمرانہ فیصلے کی تائید کرنے والے کچھ مسیحی عالم کہاں کھڑے تھے؟ سفری پابندیوں کا نفاذ ہونے سے پہلے موسم گرما میں این بی اے ہال آف فیم میں جگہ پانے والے کریم عبدالجبار (باسکٹ بال کے نامور امریکی کھلاڑی) اور ایک گولڈ سٹار مسلم فیملی‘ خضر اور غزالہ خان نے ٹرمپ کے‘ اس مسلم دشمنی پر مبنی فیصلے کی کھل کر مذمت کی۔ انہوں نے امریکیوں کو یاد دلایا کہ مسلمانوں کی اس قوم کے لیے کیا خدمات ہیں؟ ان کی تقریر کو بے حد پذیرائی ملی۔ ڈیلاس فورٹ ورتھ ایئر پورٹ پر روکا جانے والا 19 سالہ یمن نژاد امریکی شہری اسامہ تھا۔ کیا وہ شائستگی سے پیش آنے اور آئینی حقوق کے تحفظ کا حقدار نہ تھا؟ بہت سے لوگ جنگ کی مخالفت کر رہے تھے۔ کیا اسامہ کے خلاف 
پابندیوں کی پالیسی پوری طاقت سے نافذ کرنی چاہیے تھی؟ وہ امریکی شہری ہونے کے باوجود ہچکچاہٹ محسوس کر رہا تھا کہ کوئی اسے انصاف دلانے کے لیے آگے بڑھے۔ کیا مسلمانوں کی ''امریکیت‘ انسانیت اور حب الوطنی‘‘ کی جانچ کا کوئی اور پیمانہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا قصور ان کا ہے یا پیمانہ طے کرنے والوں کا؟ کیا مجھ پر فرض ہو چکا ہے کہ میں مسلسل آپ کی نامعقول منظوری حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہوں جبکہ آپ کے پیمانے تبدیل ہوتے رہیں؟ یہ سوال پوچھنے والا میں پہلا امریکی نہیں ہوں۔ اپنی زندگی پر بننے والی ایک ڈاکومنٹری میں‘ افریقی نژاد امریکی مصنف‘ جیمز بالڈون نے کہا تھا ''ایسے بہت سے دن آتے ہیں‘ جیساکہ یہ ایک دن۔ جب آپ سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ آپ کا اس ملک میں کیا کردار ہے؟ میں اخلاقی بے حسی دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتا ہوں۔ جو کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے‘ اسے دیکھ کر میرا دل کانپ جاتا ہے۔ ان لوگوں (نسل 
پرست امریکیوں) کے دل میں یہ بات بہت دیر سے راسخ ہو چکی ہے کہ میں انسان نہیں ہوں‘‘۔ بالڈون کی وفات سے اب تک‘حالات میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ افریقی نژاد امریکی مسلمانوں کی زندگی سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ انہیں شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ ٹرمپ مسلمانوں کو دوٹوک اندازمیں دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ وہ میکسیکو کے شہریوں کو آبرو ریزی کرنے والے جنونی مجرم اور سیاہ فام امریکیوں کو چور اچکا سمجھتا ہے۔ امریکی صدر اپنی رائے کو حتمی مانتے ہوئے کوئی لچک دکھانے کا روادار نہیں۔
امریکی مسلمانوں کا دفاع کرتے ہوئے سکیورٹی کا بیانیہ وہی ہے‘ جو انہیں ہدف بنانے والوں کا۔ ہم اکثر سنتے ہیں ''ہم مسلمانوں کو ناراض نہیں کر سکتے کیونکہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر ہیں‘‘۔ پیش کیا جانے والا یہ جواز‘ نہ صرف انتہائی پریشان کن ہے بلکہ ایک اہم نکتے کو بھی نظر انداز کرتا ہے۔ کیا ہم آپ کی طرح کے انسان اور امریکی شہری نہیں؟ کیا ہمیں آپ کے مساوی حقوق حاصل نہیں؟ ہماری منقسم سیاست میں لبرل اور بنیاد پرست نظریات باہم مدغم ہو جاتے ہیں‘ خاص طور سے جب مسلمانوں کی بات ہو۔ امریکی تاریخ کے سب سے نامور مسلمان عظیم باکسر‘ محمد علی نے ایک مرتبہ کہا تھا ''میں امریکہ ہوں۔ میں اس ملک کا وہ حصہ ہوں جسے آپ لوگ تسلیم نہیں کرتے لیکن آپ مجھے جانتے ہیں۔ میں سیاہ فام ہوں۔ میرا نام‘ میرا مذہب‘ میرا ہدف‘ میری منزل سب جانے پہچانے ہیں۔ آپ کو کوئی نہیں جانتا‘‘۔
گزشتہ جنوری میں ہزاروں افراد کو ائیر پورٹس کی طرف دھکیل دیا گیا۔ یہ ہمارے آئین اور اخلاقی اقدار کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ کئی دن تک وہ مختلف مقامات سے ابھرنے والے نغمے سنتے رہے ''ہم مسلمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں‘‘۔ صدر کے فیصلے کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے۔ مختلف افراد کے پاس مختلف وجوہ تھیں۔ کچھ احتجاجی مظاہرین کے پاس ذاتی وجہ تھی۔ وہ اپنے مسلمان دوستوں کو بچانا چاہتے تھے۔ دیگر کا کہنا تھا کہ امریکہ کی انسانی اور جمہوری روایات کو بچانے کے لیے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا ضروری ہوچکا ہے۔ احتجاج کے دوران کچھ چونکا دینے والے واقعات پیش آئے۔ مسلمان دن میں پانچ مرتبہ نماز ادا کرتے ہیں۔ عام طور پر سفر کے دوران ائیر پورٹس پر کوئی خالی جگہ یا عبادت کے لیے کوئی مخصوص جگہ دیکھ کر نماز پڑھ لیتے ہیں۔ ہم ائیر پورٹ پر ٹرمپ کی سفری پابندیوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے تو نماز کا وقت ہو گیا۔ صورت حال نازک تھی۔ ایئر پورٹ سکیورٹی افسران سے بات کی۔ انہوں نے ہمارے لیے ایک کونے میں انتظام کر دیا۔ اس وقت بہت سے غیر مسلم مسافر ہمارے پاس آئے اور کہا کہ آپ آرام سے نماز ادا کریں۔ ہم آپ کی حفاظت کر یں گے۔انہوںنے نعرہ لگایا ''You pray, we stay‘‘۔
ملک میں ٹویٹ پیغام‘ اسلام فوبیا میں اضافہ کر رہے تھے لیکن نیویارک ٹائمز نے اپنی سال کی بہترین تصاویر میں‘ ایئر پورٹ پر باجماعت نماز کی ادائیگی کی تصویرکو شامل کیا۔ وہ نماز احتجاج کا حصہ نہیں تھی لیکن ایک یادگار اور پرکشش واقعہ ضرور بن گئی تھی۔ اس وقت ہم اور دیگر غیر مسلم دوست اور مسافر محسوس کر رہے تھے کہ ابھی تمام امیدیں ختم نہیں ہوئیں۔ یہ احساس شدت سے ابھرا کہ امریکہ یقینا ایک ایسا ملک ہے جس کے لیے لڑا جا سکتا ہے‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں