گائو رکشکوں (گائے کے محافظوں) نے جس طرح مسلمانوں پر حملے کئے ہیں‘ اس پر بھارت کے سنجیدہ طبقے گہری تشویش میں مبتلا ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں گائو رکشا کے نام پر‘ تشدد کرنے والوں پر قابو پانے کے لئے ہر ضلع میںنوڈل افسر تعینات کرنے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اب قدرے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے راجستھان‘ ہریانہ اور اتر پردیش کے چیف سیکرٹریز کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔ یہ حکم تشار گاندھی کی جانب سے دائر درخواست پر جاری کیا گیا‘ جس میں الزام لگایا گیا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود‘ ریاستی حکومتیں گائو رکشکوں کو لگام ڈالنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ درخواست میں گائو رکشکوں کی جانب سے مختلف حملوں کے واقعات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ راجستھان میں گائو رکشکوں کی جانب سے پہلوخان کے قتل کئے جانے کے معاملے پرسپریم کورٹ نے کہا تھا کہ گائو رکشکوں کے نام پر تشدد میں ملوث لوگوں کو قانون کے شکنجے میں لانے کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں عدالت عظمیٰ نے ریاستی حکومتوں کو متاثرین کو معاوضہ دینے کی ہدایات بھی دی تھیں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ یہ معاملہ قانون کے دائرے میں نہیں آتا کیونکہ تینوں ریاستی حکومتوں نے اس ضمن میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ دیکھنا یہ ہے کہ جس طرح بھارتی سپریم کورٹ نے سخت مؤقف اپنایا ہے‘ اس کے پیشِ نظر ریاستی حکومتیں‘ گائو رکشکوں کے خلاف کتنا سخت مؤقف اختیار کرتی ہیں اور متاثرین کو کہاں تک انصاف مل پاتا ہے۔
اس سے قبل گائو رکشا کے نام پر بڑھتے تشدد کو دیکھتے ہوئے‘ 67 ریٹائرڈ آئی اے ایس افسران نے وزیراعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا‘ جس میں کہا گیا کہ شاید کوئی ایسا دن نہیں گزرتا‘ جب گائو رکشکوں کے ذریعے‘ بے گناہ افراد کو مارا نہ جاتا ہو لیکن ریاستی حکومتیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہیں۔ خط میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کے خلاف ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اپریل2017ء میں پہلو خان کو راجستھان کے ضلع الور میں بے دردی سے قتل کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ اقلیتوں (مسلمانوں) کے خلاف اتنی زیادہ نفرت پر‘ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہیں۔ ریٹائرڈ افسران نے اس بات پر بھی تحفظات کا اظہار کیا کہ کس طرح سنگین جرائم میں ملوث مجرم گرفتار نہیں کئے جاتے۔ اگر گرفتار ہوتے بھی ہیں تو آسانی سے رہا ہو جاتے ہیں۔ مغربی بنگال کے راج سمن میں‘ بابری مسجد کی 25 ویں برسی پر‘ کس طرح ایک مسلمان کو تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور اس کی ویڈیو بنا کر جس طرح دکھائی گئی‘ وہ انسانیت کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں گوتم بدھ‘ اشوک‘ اکبر‘ سکھ گروئوں ‘ ہندو سادھو سنت اور مہاتما گاندھی نے پیار‘ محبت و اخوت کی تعلیم دی ہو‘ وہاں حیرت کی بات ہے کہ نفرت اور دشمنی کیسے انتہا کو پہنچ گئی؟ تشد د کے واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ نفرت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں۔ ایسے پُرتشدد واقعات میں ظفر خان‘ جنید خاں، عمیر خاں اور نجانے کتنے افراد‘ بے گناہ ہونے کے باوجود‘ سفاکی سے قتل کئے گئے۔ بھارت میں صدیوں سے ساتھ رہنے والے ہندوئوں اور مسلمانوں میں باہمی نفرت انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ اب لوگ مسلمانوں کو مکان کرائے پر دینا اور نہ ہی فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ اس بارے میں صرف مسلمان ہی زیرِ عتاب نہیں بلکہ اتر پردیش اور راجستھان میں عیسائیوں کو بھی تشد د کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ خط میں وزیراعظم مودی سے درخواست کی گئی ہے کہ اگر جلد از جلد کارروائی نہ کی گئی تو معاملہ بد سے بدتر ہوتا جائے گا۔ کاس گنج میں فرقہ وارانہ تشدد جاری ہے‘ جس میں ماحول کو گرمانے کی کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی۔ متعصب ہندو یوپی کے سیکرٹری ناگیندر تومر‘ نے یوم جمہوریہ کے موقع پر‘ بھگوا ترنگا یاترا کے دوران‘ جو اشتعال انگیز بیانات دئیے‘ اس سے کشیدگی اور بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ پولیس اور انتظامیہ‘ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے زیرِ اثر آتے ہیں۔ وہ ہمارے نوکر ہیں۔ وہ وہی کریں گے جو ہم چاہتے ہیں۔ اب ایسے میں بھلا یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ اشتعال پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی؟ اس طرح کے حالات میں قانون اور آئین کے نام پر حلف لینے والے‘ انصاف پر مبنی معاشرہ کیسے قائم کریں گے؟