گزشتہ روز کے کالم میں عالمی صورت حال کے حوالے سے چند پیش گوئیاں شائع کی گئی تھیں‘ ان پر ''نیو یارک ٹائمز‘‘ کا حوالہ دیا گیا جبکہ یہ مضمون ایک انٹرنیشنل نیوز ایجنسی سے لیا گیا تھا۔ جس کے مضامین‘ معاوضہ ادا کرنے والے اخبارات و جرائد اور مضامین نگار‘ اشاعت کے حقوق حاصل کرتے ہیں۔ زیر نظر ''نیو یارک ٹائمز‘‘ کے مضمون میں صدر ٹرمپ کی بدحواسیوں کے نتیجے میں اسلامی ملکوں کے ساتھ امریکی تعلقات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اردن کے شاہ عبداللہ کا موجودہ دورۂ پاکستان‘ اسی صورت حال سے تعلق رکھتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
''صدر ٹرمپ کے حامیوں کو توقع تھی کہ وہ امریکی سفارت کاری میں ایک نئی کاروباری جہت متعارف کرائیں گے لیکن گزشتہ ماہ ہم نے اس کے بالکل برعکس دیکھا: سفارت کاری کی جگہ دھمکیوں کا دائو آزمایا گیا۔ یقینا ٹرمپ کی ٹیم میکسیکو اور کینیڈ ا کے ساتھ تجارت‘ چین کے ساتھ شمالی کوریا‘ اور روس کے ساتھ شام اور یوکرائن کے مسائل پر بات چیت کر رہی ہے، لیکن 2018ء میں صدر کی سفارت کاری کا سب سے چونکا دینے والا اقدام اپنے یورپی اتحادیوں‘ پاکستان اور فلسطین کے سامنے مطالبات رکھنا تھا۔ انہوں نے یورپی اتحادیوں اور کانگرس کو بتایا کہ وہ ایران کے ساتھ کی جانے والی ایٹمی ڈیل سے نکل جائیں گے‘ تاوقتیکہ ایران مئی کے وسط تک ''ایک نیا اضافی معاہدہ ‘‘ کرنے پر راضی ہو جائے۔ فلسطینیوں کی امداد میں کٹوتی کرنے کا عزم کیا تاکہ وہ پرامن گفتگو میں شریک ہو جائے۔ صدر ٹرمپ ''دہشت گردوںکو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کی پاداش میں‘‘ پاکستان کی امداد پہلے ہی معطل کر چکے ہیں۔ ٹرمپ اسے ڈیل کرنے کا ایک آسان راستہ سمجھتے ہیں۔ بہرحال صدر کے دھمکی آمیز بیانات سود مند ثابت نہیں ہو رہے۔ پاکستان کی مثال لے لیں۔ ٹرمپ نے رواں سال اپنے ایک ٹویٹ میں پاکستان پر چڑھائی کرتے ہوئے کہا ''امریکہ نے گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران پاکستان کو 33 بلین ڈالرسے زائد کی امداد دے کر حماقت کی۔ اس کے عوض پاکستان نے ہمیں دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا‘‘۔ چند دنوں بعد ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے اعلان میں پاکستان کو ملنے والی 1.3 بلین ڈالر کی سکیورٹی امداد معطل کر دی۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر پاکستان‘ طالبان اور دیگر انتہا پسندوںکے خلاف کارروائی کرے گا تو امداد بحال کر دی جائے گی۔ گویا امریکہ کا مطالبہ مانیں‘ ورنہ امداد سے ہاتھ دھونے کے لیے تیار رہیں۔
دوسری طرف پاکستانی حکام نے علی الاعلان اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ''ہمیں امریکی امداد کی ضرورت نہیں کیونکہ چین ہمارے ساتھ کھڑا ہے‘‘۔ اس کے بعد پاکستان نے ریڈیو فری یورپ کی نشریات بھی روک دیں۔ پشتو زبان کا یہ ریڈیو‘ سرحد کے دونوں طرف سنائی دیتا تھا۔ پاکستان نے الزام لگایا کہ یہ ریڈیو ایک ''دشمن ایجنسی کے مذموم ایجنڈے‘‘ کو آگے بڑھا رہا ہے۔ 20 جنوری کو کابل کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل پر ایک خوفناک حملہ کیا گیا۔ اس حملے میں ہلاک ہونے والے 22 افراد میں کئی امریکی بھی شامل تھے۔ حملے کا انداز بتاتا ہے کہ یہ حقانی نیٹ ورک کا کام ہے۔ حقانی نیٹ ورک‘ طالبان کا وہ گروپ ہے جسے پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی کی مبینہ حمایت حاصل ہے۔ اگر ٹرمپ کے ٹویٹ کا مقصد پاکستان کو ڈرانا تھا‘ تو ایسا لگتا ہے کہ اس کا الٹا اثر ہوا۔
جہاں تک فلسطینیوں کا تعلق ہے‘ وہ یقینی طور پر اس وقت پریشان ہوگئے تھے جب ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا تھا۔ فلسطینی رہنمائوں نے نائب صدر‘ پنس سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وائٹ ہائوس کا امن منصوبہ کام کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس پر مشتعل ہوتے ہوئے ٹرمپ نے اعلان کیا‘ وہ فلسطینیوں کو فراہم کی جانے والی امداد معطل کر رہے ہیں جب تک ''وہ بات چیت کرنے پر رضا مند نہ ہو جائیں‘‘۔ اقوام متحدہ کی پناہ گزینوں کی مدد کرنے والی ایجنسی کے ذریعے‘ فلسطین کو فراہم کی جانے والی 125 ملین ڈالر کی امداد پہلے ہی معطل کی جا چکی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ٹرمپ کی تنبیہ کے بعد‘ فلسطینی ایک میز پر اکٹھے ہو گئے۔ اسرائیل‘ فلسطین کو فراہم کی جانے والی امریکی امداد کی معطلی نہیں چاہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امداد کے بغیر‘ مغربی کنارے پر موجود فلسطینی سکیورٹی فورسز مفلوج ہو جائیں گی۔ یہ فورسز حالیہ برسوں کے دوران اس طرف سے اسرائیلی سرزمین پر ہونے والے حملوں کی روک تھام کرتی ہیں۔ اب ہو سکتا ہے کہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی فورسز کو تعینات کرنا پڑے۔ اگر ٹرمپ کے اقدامات کے نتائج پر غور کیا جائے تو انہوں نے فلسطینیوں کا اتنا نقصان نہیں کیا‘جتنا اسرائیل کا۔ ٹرمپ سوچتے ہیں کہ وہ اپنے اہم ترین اتحادی‘ اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔
صدرٹرمپ کا جو مطالبہ سب سے مہنگا ثابت ہو سکتا ہے‘ وہ ایران کی ایٹمی ڈیل سے متعلق ہے۔ بھڑکیلی بیان بازی کرتے ہوئے ٹرمپ نے 12 جنوری کو مطالبہ کیا تھا کہ یورپ اور کانگرس‘ 120 روز کے اندر 2015ء کی ڈیل پر نظرثانی کے لیے تیار ہو جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران پر نئی شرائط عائد کی جائیں گی کیونکہ پہلے رکھی گئی شرائط‘ تہران کا کچھ بھی بگاڑنے میں ناکام رہی ہیں۔ یورپی سفارت کار اور کچھ سینیٹرز ایسا طریقہ تلاش کرنے کی کوشش میں ہیں جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ گویا پرانی ڈیل بھی برقرار رہے اور ٹرمپ کا مطالبہ بھی پورا ہوجائے؛ تاہم یہ کام ناممکن دکھائی دیتا ہے ۔ اگر وہ ناکام رہتے ہیں تو ٹرمپ ایک بار پھر ایران پر پابندیاں عائد کر دیں گے۔ اس کے نتیجے میں ایران جوہری مواد کی تیاری شروع کر دے گا، اور اس کا تمام تر الزام ٹرمپ کے امریکہ پر آئے گا۔ صدر ٹرمپ موجودہ صورت حال کو ختم کر کے‘ ایک نئی بساط بچھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کیا ان کے پاس پاکستان پر دبائو ڈالنے کے لیے کوئی حکمت عملی ہے؟ کیا وہ جانتے ہیں کہ مغربی کنارے کو کس طرح محفوظ بنانا ہے‘ اگر فلسطینی اتھارٹی منہدم ہو جاتی ہے؟ کیا ان کے پاس ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کا کوئی نیا منصوبہ موجود ہے؟ ایسا کچھ نہیں ہے۔ بدترین بات یہ ہے کہ ٹرمپ کی دھمکیوں کے پیچھے کچھ نہیں ہے۔ خارجہ پالیسی کے میدان میں اسے 'آ بیل مجھے مار‘ کہتے ہیں‘‘۔