1950ء کا عشرہ تھا۔ پیلس ہوٹل کراچی میں پاکستان بھرکے آمریت مخالف سیاست دانوں کی محفل جمی تھی۔ اس میں ملک غلام جیلانی چہک رہے تھے۔ وہ آمریت کے خلاف بڑے جوش و خروش سے اظہار خیال کر رہے تھے۔ محفل ختم ہوئی۔ بے تکلفی کا مرحلہ آیا تو ملک صاحب نے ایسی ایسی کہانیاں سنائیں کہ میں دنگ رہ گیا۔ ان کی زیادہ تر گفتگو لندن کے کلبوں کے بارے میں تھی۔ وہاں کے شاہی‘ عالمی سیاست دانوں اور ریس کورس کے معروف شائقین کے تذکرے شروع ہو گئے۔ میں جھنگ اور لاہور کی گلیوں میں پروان چڑھا ہوا ایک نو عمر لڑکا‘ گفتگو کے اس جادوگر کی کہانیاں سن کر‘ سُن ہو گیا۔ میں نے ان کی رہائش گاہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بڑی بے تکلفی سے‘ سادہ کاغذ کا ایک ٹکڑا لے کر اس پر‘ لاہور میں اپنے گھر کا ٹیلی فون نمبر لکھ دیا۔ اس کے بعد جب وہ لاہور آئے تو رسمی ملاقاتیں شروع ہو گئیں مگر ان کی مخصوص ملاقاتیں طبقہ امرا کی محفلوں میں ہوا کرتیں‘جہاں جانا میری اوقات سے باہر تھا۔ 60ء کے عشرے میں گلبرگ لاہور کی ایک وسیع و عریض کوٹھی کے گھر کے درواز ے پر کچھ شوٹر آئے۔ باہر کھڑے دو تین آدمیوں نے تیز رفتاری سے بھاگتے ہوئے گولیاں چلائیں اور فرار ہو گئے۔ اگلے روز اخباروں میں خبریں شائع ہوئیں تو پتا چلا کہ یہ گھر ملک صاحب کا تھا۔ ملک صاحب مشرقی اور مغربی پاکستان کے ممتاز سیاسی لیڈروں اور صحافیوں کے ساتھ گہرے تعلقات رکھتے تھے۔ اس سانحے کی خبر تفصیل سے پڑھی تو معلوم ہوا کہ گیٹ پر کھڑے دو تین افراد پر گولیاں چلائی گئیں۔ دو افراد تو زمین پر لیٹ کر بچ گئے۔ ایک صحافی ۔ جس کا نام مجھے یاد نہیں تھا‘خالد چودھری نے یادوں کی دھند میں تلاش کر کے بتایا کہ اس کا نام ضمیر تھا، اس کی زد میں آ گیا۔ یہ محض ایک سنگل کالم خبر تھی۔ بڑی خبر وہ تھی جو پاکستان ہی نہیں‘ برصغیر اور عالمی میڈیا میں‘ شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی۔ یہ خبر تھی ''مشرقی پاکستان کے نمائندہ قائدین نے چھ نکات پیش کر دئیے‘‘۔ اس کے بعد یہی خبر مشرقی پاکستان کے انجام کی بنیاد بنی۔
اب ملک جیلانی صاحب کی طرف آتا ہوں۔ عاصمہ جہانگیر انہی ملک جیلانی کی بیٹی تھی۔ اب تک بھی ہے۔ مشرقی پاکستان کے عوام جو قیام پاکستان کے فوراً ہی بعد‘ اپنے سیاسی حقوق کے مطالبے کر رہے تھے‘ چھ نکات کی شکل میں پہلی مرتبہ‘ ان کی سیاسی جدوجہد‘ مطالبات آزادی کی شکل میں نمودار ہوئی‘ یہ ابتدا میں مقامی آزادی تک محدود تھی۔ یہ کہانی بھی سیاست کے طالب علموں کو اچھی طرح یاد ہو گی۔ حسب توقع مشرقی پاکستان کی قیادت پر علیحدگی پسندی کے الزامات شروع ہو گئے۔ لاہور کی محفلوں میں بیٹھے ملک غلام جیلانی کی گرج دار آواز گونج رہی تھی اور وہ انتباہ کیا کرتے کہ ''اب بھی سمجھ جائو۔ ورنہ مشرقی پاکستان جا رہا ہے‘‘۔ لیکن لسی پینے والا لاہور ایسی باتیں کہاں سمجھتا؟ اس ماحول میں جہاں بنگالیوں کو علیحدگی پسند اور مغربی پاکستان والوں کو محب وطن سمجھا جاتا تھا‘ وہاں مشرقی پاکستان کے حق میں ایک تنہا آواز ابھری۔ جب اس پر کان نہ دھرا گیا تو ملک صاحب‘ لاہور ہائی کورٹ میں اپنا مقدمہ لے گئے۔ وہاںسامنے علامہ اقبالؒ کے صاحبزادے ‘ جاوید اقبال بینچ کے سربراہ تھے۔ مجھے نہیں معلوم ملک صاحب‘ کیا مقدمہ لے کر گئے؟ باہر نکلے تو بڑبڑا رہے تھے ''یہ نہیں سمجھے گا‘‘۔ پوچھنے پر انہوں نے جواب دیا ''یہاں کچھ نہیں ہو گا۔ نورے کے گھر اقبال پیدا ہوا اور اقبال کے گھر پھر نورا پیدا ہو گیا‘‘۔ وہ اسلام آباد‘ کراچی اور لاہور کے تمام سرکردہ سیاست دانوں کے پاس گئے اور کہا ''پاکستان بچانا ہے تو بچا لو‘ ورنہ یہ ڈکٹیٹر‘ قائداعظمؒ کے پاکستان کو توڑ دے گا‘‘۔
مشرقی پاکستان میں ہونے والی خونریزی پر عاصمہ جہانگیر کا دل تڑپتا رہتا۔ سیاست سے بیگانہ ہو کر‘ اپنی اس قوم کے تڑپنے اور خون میں نہانے کی یادیں لے کر‘ عالم انسانیت کی آزادی‘ دکھوں اور محرومیوں کے خلاف ایک جنرل کی طرح نکل کھڑی ہوئی۔ قانون کی ڈگری لینے کے بعد عملی زندگی میں‘ اس نے جو پہلا قدم رکھا‘ وہ مظلوم انسانیت کے دکھوں اور محرومیوں کے ازالے کے لئے تھا۔ عاصمہ نے غریب‘ مصیبت زدگان کے مقدموں کی مفت پیروی شروع کر دی۔ اکثر اوقات ایسا بھی ہوا کہ عاصمہ کے موکل‘ آنے جانے کا کرایہ اور مقدمے کے کاغذات بھی نہیں خرید سکتے تھے۔ اس نے اپنا ایک دفتر بنایا۔ بہن حنا جیلانی نے اس کا ساتھ دیا۔ دونوں بہنوں نے بے بسوں‘ مجبوروں اور مصیبت زدگان کے حقوق کی جنگ لڑی۔ ظاہر ہے کہ مصیبت کے مارے ہوئے ہر مظلوم‘ جس کی عاصمہ پیروی کرتی‘ اسے مصیبتوں میں دھکیلنے والا کوئی نہ کوئی طاقتور‘ بے رحم اور علاقے کا معتبر ہوتا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تن تنہا یہ خاتون‘ معاشرے کے کن طبقوں سے ٹکر لے رہی تھی؟
پھر وہ عالمی انسانیت کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لئے نکل کھڑی ہوئی۔ شاید ہی دنیا میںانسان دوستی کی ایسی کوئی تنظیم ہو‘ جہاں عاصمہ نے پاکستان کی طرف سے حصہ نہ ڈالا ہو۔ خصوصاً وہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم شہریوں کی بے بسی کی آوازبن کرعالمی ضمیر کو جھنجھوڑتی رہی۔ ایک کالم میں ان تنظیموں کے نام لکھنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ جتنی تنظیموں کے لئے عاصمہ خدمات انجام دے رہی تھیں‘ ان کی تفصیل یاد رکھنا میرے بس کی بات نہیں۔ عاصمہ کے دفتر ہی سے پتا کیا جا سکتا ہے۔ ملک غلام جیلانی ایک دوست تھا۔ نہ رہا۔ عاصمہ نے بیٹی کا پیار دیا۔ وہ بھی چلی گئی۔ شیخ مجیب الرحمن سے ملاقات ہوئی۔ اس نے آزادی لے کر‘ اپنا جسم گولیوں سے چھلنی کرا لیا۔ مجیب نے جو آزادی ہندو سامراجیوں سے حاصل کی تھی‘ پاکستانی حکمرانوں سے ٹکر لے کر اپنی قوم کو‘ پھر انہی کی غلامی کے چنگل میں دے گیا۔ بلوچستان کے سردار اکبر بگٹی‘ کا بیٹا طلال بگٹی‘ لاہور کی جیل میں تھا۔ بگٹی صاحب جب بیٹے سے ملنے آتے تو ملک جیلانی کے گھر قیام کرتے۔ وہیں پر ان سے یاد اللہ ہو گئی۔ ایک بار میں وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ بگٹی صاحب کے گھر گیا۔ ان کے ہاں فرشی نشست ہوتی۔ سردار صاحب میرے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے میرے کان میں کہا ''کس کے ساتھ آ گئے ہو؟‘‘ میرے پاس سردار صاحب کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ آج تک سوچ رہا ہوں ''میں کس کے ساتھ تھا؟‘‘