"NNC" (space) message & send to 7575

نئے حالات میں تنازعہ کشمیر کا حل؟

اقوام متحدہ کی تنظیم اس لئے بنائی گئی تھی کہ مختلف ممالک آپس میں باہمی تنازعات کو حل کرنے کے لئے جو براہ راست جنگ کا راستہ اختیار کرتے ہیں‘ اس کاسدباب ہو سکے۔ اس مقصد کے لئے کچھ بڑی طاقتوں کو ویٹو کا حق دے دیا گیا لیکن اس حق کا استعمال بھی غیر جانبداری سے نہیں کیا جا سکا۔ باہمی کشیدگی میں مبتلا ملکوں کو‘ اقوام متحدہ کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملی۔ حقیقت میں یہی ہوا کہ ویٹو پاورز نے باہم خود فیصلے کر کے‘ کسی ایک ملک کی مدد کی اور کمزور ملک کے خلاف معاہدہ امن کرا دیا۔ جس کی مثالیں جابجا موجود ہیں۔ فلسطینیوں نے یو این پر بھروسہ کیا تو وہ اپنے وطن سے محروم رہے اور آج تک تنازعات کا شکار ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کا مسئلہ‘ پوری دنیا میں قدیم ترین تنازعہ بن چکا ہے۔ اب یہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان محدود نہیں رہ گیا۔ کشمیری خود ایک تیسری طاقت بن کر سامنے آ گئے ہیں۔ مجاہدین کی قربانیاں رنگ لانے لگی ہیں۔ دلی کے حکمران بے جا ضد چھوڑ کر‘ کشمیری عوام کے ساتھ معاملات طے کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ بھی مسئلے کا حل نہیں ہو گا۔ پاکستان کو ایک فریق کی حیثیت میں شامل کرنا پڑے گا۔ اس کی نشاندہی کلدیپ نیئر نے‘ اپنے ایک حالیہ مضمون میں بھی کی ہے‘ جو پیش کر رہا ہوں۔
''کشمیر میں دو اور پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔ یہاں جانی نقصان پہلی بار نہیں ہوا۔ اس کا پریشان کن پہلو یہ ہے کہ ہلاکتیں وقفے وقفے سے ہوتی رہتی ہیں۔ نئی دلی تشدد کو کچلنے میں ناکام جا رہا ہے۔ مرکز میں نریندر مودی حکومت کے ہاتھ سے معاملہ پھسل رہا ہے۔ اگر تشدد کو روکنا ہے تو اس مسئلہ پر قابو پانا پڑے گا۔ حال ہی کی بات ہے کہ دو دہشت گرد اپنے ساتھیوں کو آزاد کرانے کے لئے‘ ہسپتال کے احاطے میں گھس گئے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ وادی میں کوئی جگہ بھی محفوظ نہیں۔ ا یسے واقعات سے ہمارے حفاظتی نظام کا پول کھل جاتا ہے۔ جب2014ء میں کشمیر کے علاقہ کلگام میں‘ 22سالہ گرفتار نوید جٹ سرکاری ہسپتال سے باہر‘ طبی معائنے کے لئے لایا گیا اور دہشت گرد حملہ آوروں کے ساتھ دن دیہاڑے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ لگتا ہے کہ وادی میں دہشت گردوں نے کوئی بے خطا نظام نصب کر رکھا تھا کہ جٹ کو کہاں سے لایا جائے گا؟ جب اسے دیگر قیدیوں کے ہمراہ لایا گیا تو گولی چلانے سے پہلے‘ دہشت گرد ہسپتال کی پارکنگ لاٹ میں چھپے ہوئے انتظار کر رہے تھے۔
درحقیقت ہر سیاسی پارٹی کے پاس کوئی ایسا آدمی ہوتا ہے جو سری نگر میں باہر سے آنے والے کسی بھی شخص کے بارے میں اطلاع دیتا ہے۔ دہشت گرد اور دیگر عناصر درپیش خطرے کے مطابق مزاحمت کے لئے تیار رہتے ہیں۔ دہشت گردوں کا خفیہ نظام‘ حد درجہ رخنہ دار ہوتا ہے۔ محبوبہ مفتی کی حکومت‘ اپنی ناکامی کا اعتراف کرتی ہے۔ سنگ باری میں ملوث تمام افراد کو بظاہر جذبۂ خیر سگالی کے تحت رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے پیچھے اصل سبب انہیں حاصل عوامی حمایت ہے۔ صورت حال اس طرح کی ہے کہ انتہا پسند یٰسین ملک اور شیر شاہ‘ آج اپنی معنویت کھو چکے ہیں؟ قیادت نوجوان کر رہے ہیں۔ وہ اس حقیقت کی پردہ پوشی ہرگز نہیں کرتے کہ وہ خود اپنا الگ اسلامی ملک بنانا چاہتے ہیں۔ نہ وہ پاکستان نواز ہیں۔ نہ ہی بھارت نواز بلکہ وہ ''خود نواز‘‘ ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد پر واضح کر دیا ہے کہ ان کی تحریک کا مقصد‘ خود اپنی شناخت سازی ہے۔ نئی دلی کو اس کا احساس تو ہے لیکن اس کے پاس کوئی متبادل راستہ نہیں جو پیش کیا جا سکے۔ اس کا جواب حفاظتی افواج میں نظر آتا ہے‘ جنہیں روز افزوں جانی نقصان برداشت کرنا پڑ تا ہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ اگر وہ شناخت کے معاملے پر زور ڈالنے گا تو ملک کی تقسیم کے پورے فارمولے پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ اس لئے پاکستان کا زور اس پر ہے کہ فریقین آمنے سامنے بیٹھ کر ‘کوئی ایسا حل تلاش کریں‘ جو دونوں کے لئے قابل قبول ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام آباد حقیقت کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی کشمیر کو ایک علیحدہ اسلامی ملک بنائے جانے کی کوشش کی گئی ہے۔ نئی دلی نے واضح کر دیا ہے کہ جب تک اسے یقین نہیں دلایا جائے گا کہ پاکستان نہ دہشت گردوں کو پناہ دے گا اور نہ انتہا پسندی میں شریک ہو گا‘ اس سے کوئی مذاکرات نہیں کئے جائیں گے لیکن یہ ایک سہانا خواب ہے۔
ماضی میں جھانکیے‘ جب کشمیر کے واحد لیڈر ‘شیخ عبداللہ کو 1952ء میں اس بنیاد پر حراست میں رکھا گیا کہ وہ چاہتے تھے کہ بھارت‘ کشمیر کو خود مختاری دینے کا وعدہ پورا کر ے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ خارجی امور‘ دفاعی امور اور مواصلات کو چھوڑ کر‘ تمام اختیارات سری نگر کو منتقل کر دئیے جائیں۔ 1989ء کا زمانہ بھی یاد کر کے دیکھیے‘ جب صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں کشمیری نوجوانوں کو اس قیاس آرائی پر مجبور کرنے کے لئے ہیرا پھیری کی گئی کہ بیلٹ باکس سے انہیں اقتدار حاصل ہو سکتا ہے۔ کشمیری لیڈروں‘ خصوصاً نوجوان نسل کو حقائق کا سامنا کرنا ہے۔ اگلے سال لوک سبھا انتخابات کی شکل میں‘ ایک اور موقع انہیں ملنے والا ہے۔ اگر ان میں اتحاد ہے تو وہ قوم سے اس چیز کا مطالبہ کر سکتے ہیں‘ جس سے انہیں 1952ء کے معاہدہ دلی کے بعد سے محروم رکھا گیا اور وہ ان کی خصوصی حیثیت‘ منصفانہ انتخاب کے لئے تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کئے جانے پر اصرار کر سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہو کر کشمیری لیڈر وں کو‘ حکومت کا یہ الزام غلط ثابت کرنے کا موقع ملے گا کہ ان کی حمایت بنیاد ی طور پر اس خوف اور بنیاد پرستی کی وجہ سے تھی‘ جو انہوں نے وادی میں پھیلائی ہے۔ انہیں یہ بات سمجھنی چاہئے کیونکہ کشمیر کی غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے نئی دلی نے اس ریاست کو لبرل معاشی امداد سے محروم رکھا ہے‘ جو اسے ملنی چاہئے۔ گزشتہ دہائیوں میں کئی امدادی پیکیجز کا اعلان ہوا‘ جو صرف اعلانات ہی رہے۔ آج لوگ تشدد سے تنگ آئے ہوئے ہیں؟ حفاظتی افواج اور سرحد پار کے دہشت گردوں نے ان کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ انہیں ترقی چاہئے نہ کہ سیاست‘ جو محبوبہ مفتی بڑے جوش و خروش سے کر رہی ہیں۔ ریاست میں ایک ذمہ دار‘ صاف ستھری اور بامقصد انتظامیہ‘ خود ان کی اور دلی کی پریشانیوں کو کم کر سکتی ہے‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں