چیف جسٹس آف پاکستان‘ میاں ثاقب نثار نے گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے متعدد مقدمات میں سے‘ ایک کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ''کیا کوئی چور یا ڈرگ مافیا کا سرغنہ‘ پارٹی سربراہ ہو سکتا ہے؟‘‘
سلمان اکرم راجہ نے کہا ''کیا نا اہلی کے بعد ایک شخص کے بنیادی حقوق ختم ہو گئے؟ کیا اس کے بولنے اور دیگر بنیادی حقوق نہیں ہیں؟ پاکستان میں دیگر رہنمائوں کو جلاوطن کیا گیا اور متعدد رہنما ان حالات سے دوچار ہوئے‘‘۔ ملزم کے وکیل نے مزید کہا ''ایسے رہنمائوں میں ایوب کھوڑو اور حسین شہید سہروردی شامل ہیں۔ کیا ان کے بنیاد ی حقوق چھین لئے گئے؟‘‘
اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے ''یہ حقوق تو ان کو حاصل ہیں لیکن کسی شخص کو عدالت‘ خائن اور غیر امین قرا دے تو وہ پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا‘‘۔
چیف جسٹس نے کہا ''جو شخص اسمبلی کا رکن نہیں بن سکتا‘ پارٹی کا سربراہ کیسے بن سکتا ہے؟ کیا سنگین جرائم میں سزا پانے والے کو یہ حق دیا جا سکتا ہے؟‘‘
یہ ہے وہ بحث‘ جو ان دنوں پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں ہو رہی ہے۔ ہمارے ملک میں حسین شہید سہروردی کو کبھی جیل میں نہیں ڈالا گیا۔ ایوب کھوڑو کا نام آیا تو ان کی جیل بھی نیلسن منڈیلا کی طرح 27 برس کی نہیں تھی۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ جس عظیم شخصیت کی مثال دی گئی وہ جنگ آزادی کا ایک مجاہد تھا۔ آزادی حاصل کر کے‘ سربراہ مملکت بننے کے بعد بھی‘ اس نے قومی خزانے میں نہ کوئی خیانت کی‘ نہ ملک کے سربراہ کی حیثیت میں کاروبار کیا۔ ایک عظیم انقلابی نے قوم کی خا طر اپنی آزادی کے 27 سال‘ ویران پہاڑیوں اور جیل سے بدتر کوٹھڑی میں قیدِ تنہائی کاٹی۔ خدا کے لئے منڈیلا پر رحم کریں۔ جنگ آزادی کے ایک مجاہد کی مثال‘ ذاتی طیاروںمیں سفر کرنے‘ سرکاری محلات میں سرکاری خرچ پر قیام پذیر رہنے والے اور عالمی بینکوں میں اربوں روپے جمع کرنے والے کے حوالے سے دینا ایسے ہے‘ جیسے مسجد کا سامان چوری کر نے والا کوئی شخص‘ قانون کے محافظوں کے سامنے اکڑ کے کھڑا ہو جائے اور اپنے اس فعل بد کے حق میں دلائل دینا شروع کر دے۔ ہمیں ایسے ہی دلائل سننے کو مل رہے ہیں۔
میں ان دنوں بھارت کے جارحانہ عزائم اور تیاریوں کی خبریں سن کر فکر مند رہتا ہوں۔ وہاں کی حکمران جماعت کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو‘ مسلمانوں پر زندگی اجیرن کر دی جائے۔ ویران سڑکوں پر چلتے پھرتے مسلمانوں کو موت کی نیند سلا دیا جائے۔ شریف گھرانے کی عورتوں کو پرہجوم سڑکوں اور بازاروں میں گھیر کے‘ مار پیٹ اور مغلظات کا ہدف بنایا جائے۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ بھارت نے جدید ترین اسلحہ‘ اپنی سرحدوں پر پہنچا دیا ہے اور موقع کی تاک میں ہے کہ جیسے ہی پاکستان کسی بحران میںمبتلا ہو‘ فوراً حملہ کر دے۔ یہ حملہ کیسا ہو گا؟ اس کی قیاس آرائی میں نہیں کر سکتا۔ یہ صرف ماہرین یا ملک میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہنے والے لوگ ہی بتا سکتے ہیں۔ ایک اصطلاح انارکی ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ آئین و قانون غیر مؤثر ہو جائیں۔ عدالت عظمیٰ کے منصفوں کو ماہرینِ قانون سے کہنا پڑے کہ سیاست اور قومی عہدوں کے لئے نااہل ہونے والا شخص‘ کیسا ہوتا ہے؟ سیاست کے نام پر حکمرانی کے خواب دیکھنے والے اور جائز و ناجائز طریقوں سے اپنے خوشامدیوں کے ذریعے اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنے والے کون ہیں؟ اپنی دولت کی طاقت سے عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھنے والے یہ کون ہوتے ہیں؟
آج کی صورت حال کو غور سے دیکھیں۔ حکمران ہر جگہ لاقانونیت‘ اغوا‘ قتل‘ ڈاکہ زنی غرض یہ کہ ملک کی روز مرہ زندگی کو‘ اپنے عمل سے درہم برہم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے ذمہ دار خود انتشار‘ جرائم‘ لوٹ مار‘ قانون شکنی غرض ہر وہ کام کرتے ہیں‘ جس کے لئے وطن دشمن دن رات سرگرم رہتے ہیں۔ سرکاری مشینری درہم برہم ہو رہی ہے۔ قومی خزانہ ابتری کی حالت میں ہے۔ زرمبادلہ کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے‘ بیرونی کمپنیوں اور حکومتوںسے کن شرائط اور منافع پر قرضے حاصل کئے جا رہے ہیں؟ مفلوج ملک کو مزید مقروض کیا جا رہا ہے۔ پہلے میں سوچا کرتا تھا کہ کالموں میں اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق‘ اچھی راہیں تلاش کرنے کی کوشش کروں۔ اب تو مجھے یہ کوششیں بھی بے کار نظر آتی ہیں۔ سوجھ بوجھ ہی نہیں رہ گئی۔ حکومت نے معاشرے کی خرابیاں دورکرنے کی ذمہ داریاں فراموش کر دی ہیں۔ کھانے پینے کی کسی چیز پر اعتبار نہیں رہ گیا۔ کسی کو یقین نہیں کہ بازار سے دودھ‘ دوائیں‘ بچوں کی غذائیں غرض کوئی بھی چیز خالص مل سکتی۔ بے اعتباری کا یہ عالم ہے کہ لوگ دودھ خریدتے وقت خوف میںمبتلا رہتے ہیں کہ خدا جانے یہ خالص بھی ہو گا یا نہیں؟ خریداروں سے تنگ آکر گوالوں نے بھینسیں سڑکوں پر لا کے کھڑی کر دی ہیں اور ٹریفک کے بیچوں بیچ دودھ فروخت کر رہے ہیں تاکہ خریداروں کو یقین ہو جائے کہ خالص دودھ مل رہا ہے۔ اس وقت بھی میرے سامنے ٹیلی ویژن پر یہ منظر ہے کہ گوالوں نے عین سڑک کے بیچ بھینسیں کھڑی کر کے دودھ بیچنا شر وع کر دیا ہے۔ خریدار سڑک کے درمیان کھڑے ہیں اور پولیس لاٹھیاں لے کر گوالوں اور خریداروں کی مرمت کر کے‘ انہیں بھگا رہی ہے۔ اس کے سوا کیا لکھوں کہ ''چور اچکا چودھری تے غنڈی رن پردھان‘‘۔ اور ہمیں دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں کہ ''اگلی حکومت بھی ہم ہی بنائیں گے‘‘۔