اگر یہی چلن رہا تو عدالتوں میں گئے ہوئے سیاسی معاملات شاید ہی کبھی حل ہوں۔ شادیوں میں پہلے ڈھولکی بجا کرتی تھی‘ اب ڈھول بجنے لگا ہے۔ اس تبدیلی پر ہمارے بزرگ کیا فرمان جاری کرتے ہیں؟ مستقبل کی وزیراعظم‘ مریم نواز مسلسل توہین عدالت کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ نواز شریف احتیاط کرتے آ رہے تھے لیکن دختر نیک اختر کے متعدد بیانات کے بعد انہوں نے بھی ہمت کر لی۔ عدالت عالیہ نے مسلم لیگ (ن) کے صدر‘ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز‘ سمیت پارٹی کے متعدد رہنماؤں کے خلاف توہین عدالت کی درخواستوں پر‘ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے ذمہ دار افسر کو ریکارڈ سمیت طلب کر لیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف اور پارٹی کے دیگر رہنمائوں کے خلاف‘ توہین عدالت کی دائر درخواست پر سماعت کے آغاز میں درخواست گزار نے کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز مسلسل توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں اور پاناما پیپرز کیس میں‘ سپریم کورٹ کے فیصلے کی آڑ میں اداروں کو تضحیک کا نشانہ بنا رہا ہے۔ درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت‘ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائے جبکہ پیمرا کو عدالت مخالف تقاریر نشر کرنے سے روکے۔ جسٹس شاہد کریم نے‘ پیمرا کے ذمہ دار افسر کو ریکارڈ سمیت 23 فروری کے دن طلب کر لیا۔
29 جنوری 2018ء کو لاہور ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم نواز شریف‘ بی بی مریم نواز‘ وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چودھری کے خلاف توہین عدالت کی متفرق درخواستیں دائر کی گئیں۔ شہری نے درخواست میں 27 جنوری کو جڑانوالہ میں ہونے والے جلسہ عام کا حوالہ دیا۔ جس میں بتایا گیا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی جانب سے ایک مرتبہ پھر اعلیٰ عدلیہ کی توہین کی گئی۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم کی صاحبزادی‘ مریم نواز بھی کئی بار عدالتوں کے خلاف بیان بازی کر چکی ہیں۔ پاناما پیپرز کیس کا فیصلہ کرنے والے سپریم کورٹ کے بینچ کو‘ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی جانب سے مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ پیمرا بھی عدلیہ مخالف تقاریر اور بیانات نشر نہ کرنے کے حوالے سے ناکام ہو چکا ہے۔ درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کے خلاف‘ بیان بازی کرنے پر نواز شریف‘ مریم نواز‘ طلال چودھری اور رانا ثناء اللہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے جبکہ پیمرا کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
سابق وزیراعظم‘ بے نظیر بھٹو کے کیس میں بری ہونے والے ملزمان کی نظر بندی میں مزید دو ماہ کی توسیع کر دی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس‘ عبدالسمیع خان کی سربراہی میں تین رکنی ریویو بورڈ میں‘ پنجاب حکومت کی جانب سے نظر بندی میں توسیع کی استدعا کی گئی۔ خیال رہے کہ 31 اگست 2017ء کو راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے بینظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ سنایا تھا‘ جس کے مطابق 5 گرفتار ملزمان کو بری کر دیا گیا جبکہ سابق سٹی پولیس افسر (سی پی او) سعود عزیز اور سابق سپریٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) خرم شہزاد کو مجرم قرار دے کر 17، 17 سال قید کی سزا اور مرکزی ملزم سابق صدر پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔
کراچی میں ایم کیو ایم خواہ چھوٹی پارٹی ہے، نے سینیٹ کی موجود چند نشستوں پر بھی کامیابی سے تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ اس میں نشستوں کے دعویدار دو گروپ تھے۔ ان دونوں گروپوں نے اپنے اپنے ہیڈ کوارٹر قائم کئے۔ ایک ہیڈ کوارٹر پی آئی بی کالونی میں بنایا۔ دوسرا بہادرآباد میں۔ دونوں فریقوں کے نمائندے آج (19 فروری) تک اپنا تنازع جاری رکھنے میں کامیاب رہے۔ ایک طرف مہا کنوینر جناب فاروق ستار خود کو پارٹی کا کرتا دھرتا قرار دے رہے ہیں تو دوسری طرف مقبول احمد صدیقی ایم کیو ایم کا سربراہ بننے پر بضد ہیں۔ یہ دونوں روزانہ سہ پہر کو جتنے ٹیلی ویژن چینلز ہاتھ لگتے‘ ان سب پر مسلسل اپنا اپنا مؤقف پیش کرتے رہے۔ تین بجے ان کا مؤقف شروع ہوتا، اگلی صبح تک جاری رہتا اور چودہ پندرہ گھنٹے کی تقریریں سننے کے بعد‘ ناظرین کو یہ سمجھ نہیںآتی تھی کہ کون سا گروپ اصلی ہے اور کون سا نقلی؟ آج (19 فروری) کی شام پانچ بجے تک بھی یہ پتا نہیں چلا کہ کون سے گروپ کی جیت ہوئی ہے؟ دونوں گروپ اپنے آپ کو جائز نمائندے قرار دے رہے ہیں اور دونوں ہی اپنے اپنے سینیٹرز کے منتخب ہونے کا بھی اعلان کر رہے ہیں۔ دونوں گروپوں کے سربراہوں نے حیدر آباد اور کراچی میں ووٹنگ کرائی۔ دونوں اپنی اپنی ووٹنگ کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ بہادر آباد گروپ کی رابطہ کمیٹی نے الیکشن کو مسترد کرتے ہوئے انٹرا پارٹی انتخابات کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ یہ مفلس کارکنوں کو مستقل تقسیم کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ ادھر فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی کو معطل کر دیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کے گروپ کو تسلیم کرنے سے انکار کر ڈ ا لا۔ دونوں گروپوں نے سینیٹ میں اپنی اپنی نمائندگی کا اعلان بھی کر دیا۔ اور اب پھر مذاکرات پر کمر باندھے کھڑے ہیں۔ میں دوسرے گروپوں کا ذکر اس لئے نہیں کر رہا کہ کالم میں گنجائش نہیں۔ ابھی بہت سی جماعتوں کے بہت سے دعوے باقی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ سینیٹ کی انتظامیہ اب اس تنازعے کا کیا حل نکالتی ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے باپ بیٹی اپنے دعوے کر رہے ہیں۔ بیٹی نے تو اعلان کر دیا ہے کہ عدالتوں میں جتنی سماعتیں ہونا تھیں‘ ہو چکیں۔ اب ہم خود فیصلہ کریں گے۔ میں نے صرف سیاسی جماعتوں کے ''اتحاد و یکجہتی‘‘ کی منظر کشی ہے۔ ابھی بہت سی پارٹیاں باقی ہیں‘ بہت سے تنازعات باقی ہیں۔ اگر سو نشستوں کے لگ بھگ سینیٹ کا فیصلہ نہیں ہو گا تو قومی اسمبلی کی تین سو سے زائد نشستوں پر کیا فیصلہ ہو گا؟ کب تک ہو گا؟ میرا اندازہ ہے کہ آئندہ انتخابات تک تو نہیں ہو سکے گا۔ ابھی سینیٹ اور قومی اسمبلی کے جھگڑے طے نہیں ہوئے‘ آنے والے دو تین انتخابات تک ہی ہو جائیں گے۔