بہت عرصہ ہو گیا ہماری پارلیمنٹ اپنے اصل کام فراموش کر چکی ہے۔ سپیکروں کی ٹیم بھول چکی ہے کہ اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ عام طور پر اب وہ یا تو اجلاس برخاست کرتے ہیں‘ یا حاضری لگواتے ہیں۔ یہی حال اراکین پارلیمنٹ کا ہے۔ ان کا زیادہ وقت آمد و رفت میں گزرتا ہے۔ کبھی اسلام آباد سے اراکین کی ٹیمیں شہر لاہور کا رخ کرتی ہیں۔ اخبار نویسوں کے ساتھ مل کر انہیں نئی نئی کہانیاں دیتی ہیں۔ جس رپورٹر کی رکن پارلیمنٹ یا وزیر کے ساتھ نہیں بنتی‘ اس کے نام سے ایک ''خاردار‘‘ بیان جاری کر دیا جاتا ہے۔ جس رپورٹر کے وزیر‘ مشیر یا زیادہ شہرت رکھنے والے رکن پارلیمنٹ کے ساتھ باہمی تعلقات اچھے ہوتے ہیں تو باہمی تبادلۂ خیال کے ذریعے ایک خبر تیار کی جا تی ہے۔ جس میں زیادہ حصہ رپورٹر کا ہوتا ہے۔ فنکارانہ مہارت یہ ہوتی ہے کہ نمائندے کا شکار بننے والے وزیر یا پارلیمنٹ کے رکن کو‘ مختلف سوالات تیار کر کے دے دئیے جاتے ہیں۔ رپورٹر اپنے ''شکار‘‘ کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اس موضوع پر اپنے ''قیمتی خیالات‘‘ کا اظہار کرے۔ اس کی باتوں میں سے کوئی چیوندی چیوندی خبر نکلتی ہے۔ اگلے روز اخبار کے قارئین کو Exclusive خبر مل جاتی ہے۔ جس کا فائدہ یہ ہے کہ صحافتی برادری کو ایک نیا موضوع مل جاتا ہے۔ رپورٹروں کی ٹیمیں بن جاتی ہیں۔ وہ شائع شدہ خبر کی بنیاد پر‘ طرح طرح کے سوالات پیدا کر کے‘ ایک اور نئی خبر ''تیار‘‘ کر لیتے ہیں۔ اس خبر پر کچھ اخبار نویس اپنا حصہ شامل کر کے سنسنی یا رنگ بھرتے ہیں۔ دوسرے اس خبر کے ٹانکے توڑ کر یا لگا کر ایک نئی خبر بنا لیتے ہیں۔
کالم نویس بھی اس خبر پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔ اداریہ نویس اپنے اخبار یا جریدے کی پالیسی کے مطابق‘ دلائل دے کر اداریے لکھتے ہیں۔ بعض ایسے اخبار ہوا کرتے تھے جن کے اداریے شوق اور تجسس کے ساتھ پڑھے جاتے تھے‘ جن میں ''پاکستان ٹائمز‘‘، ''سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ اور''فرائیڈے ٹائمز‘‘ شامل تھے۔ '' پاکستان ٹائمز‘‘ کے اداریے جس زمانے میں فیض صاحب یا مظہر علی خان لکھا کرتے تھے‘ قارئین بڑے شوق سے پڑھتے۔ اسی طرح نوائے وقت میں حمید نظامی مرحوم کے اداریے ایک زمانے میں بہت مشہور تھے۔ قارئین اپنے پسندیدہ اداریہ نویس کی تحریریں پڑھ کر لطف اندوز ہوتے۔ یہ اداریے عموماً ایک مکتبِ فکر کے لوگ لکھا کرتے۔ یہ مخصوص نظریے اور سیاسی طرزِ فکر کے اداریے ہوتے۔ ہم خیال قارئین انہی کو پڑھا کرتے۔ جہاں تک مجھے یاد رہ گیا ہے‘ اب اداریہ نویسی جیسی کوئی چیز دیکھنے میں نہیں آتی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اخباروں کے مالکان فالتو جھگڑوں میں نہیں پڑتے۔ بیشتر اخباروں کی پالیسیاں‘حکمران جماعتوں کی پالیسیوں سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔ اخباری پالیسیاں پسندیدہ سیاست دانوں کی سوچ کے قریب ہوتی ہیں۔ بعض اخبار‘ علمی پس منظر کے ساتھ لکھتے اور اپنے موضوع میں منفرد خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک آخری قسم یہ ہے کہ اخبار نویس‘ مختلف سیاسی لیڈروں کی جیب دیکھ کر ان کے بارے میں خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان خیالا ت کا تعلق ان رقوم سے ہوتا ہے جو مالکانِ اخبارات کے بینک میں جاتی ہیں۔ پالیسی کی یہ ''پسندیدگی‘‘ دولت مند سیاست دانوں کے عطیات پر مبنی ہوتی ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے ایک ایسا سیاسی خاندان منظر عام پر نمودار ہوا ہے‘ جو ہر کسی کو اس کی
ضرورت‘ پسند اور شوق کے مطابق‘ سرمایہ فراہم کرتا ہے۔ پہلے میڈیا مالکان کے اپنے بھی سیاسی خیالات ہوتے تھے۔ تجزیاتی سوچ ہوتی تھی۔ معلومات کے ذخیرے ہوتے تھے۔ دنیا میں رونما ہونے والی تیز رفتار تبدیلیوں پر ان کی نظریں ہوتی تھیں۔ اپنے نظریات بھی ہوتے تھے۔ یہ سلسلہ گزشتہ صدی کے آخری دو عشروں میں شروع ہوا۔ اس خاندان کو سیاست‘ علم اور نظریات سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ یہ خاندان کئی عشروں سے حکومتیں چلا رہا ہے، لیکن اسے آج تک معلوم نہیں کہ اس کے نظریات کیا ہیں؟ اسی خاندان کا ایک فرد صوبائی سیاست کا چیمپئن ہے۔ عملی سیاست میں وہ بڑے بڑے تعمیراتی کام کرتا ہے۔ یہ کام عوام کے لئے ہوتے ہیں۔ اور انہی کاموں سے سرمائے کے ''ثمرات‘‘ سمیٹتا ہے۔ سکول ایسے بناتا ہے‘ جس کے در و دیوار اور ڈیزائن شاندار ہوتے ہیں۔ سکولوں کا تعلیم سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ہسپتال بناتا ہے تو مشینری اور بستر لگ جاتے ہیں لیکن ان میں مریض نہیں آتے‘ علاقے کا بڑا زمیندار یا سیاسی ساتھی ہوتا ہے‘ جس کی بکریاں اور بھیڑیں ہسپتال کے اندر محو ''خرام‘‘ رہتی ہیں۔ شوق سرمایہ داری کا ہے لیکن ہمارا محبوب لیڈر‘ جلسوں میں غریبوں کے حامی ایک شاعر کے شعر پڑھتا ہے۔ مائیک کو مکا مارنا اس کا دیرینہ مشغلہ ہے۔ ہر برسا ت کے موسم میں گھٹنوں سے اوپر والے لانگ شوز پہنتا ہے۔ پانی میں گھسنے سے پہلے اپنے خدام سے پیمائش کرا لیتا ہے کہ جس پانی میں داخل ہو رہا ہے‘ اس کی گہرائی بوٹوں سے زیادہ اونچی نہ ہو۔ کسی نے انہیں گہرے پانی میں جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس خاندان کے لیڈروں کا فلسفہ‘ آپ کو ہر نئی سیاسی مہم میں نظر آئے گا۔ کبھی اس پہ مذہبی رنگوں‘ کبھی اشتراکی اور کبھی قوم پرستانہ غلبہ نظر آئے گا۔ چینیوں سے بھی دوستی ہے اور بھارتیوں سے بھی۔ آنے والے انتخابات میں اس سیاسی خاندان کا نظریہ کیا ہو گا؟ وقت آنے پر پتا چلے گا۔