ہمارا پاکستان‘ ان دنوں ساری دنیا میں گمشدہ دولت کے لئے بھٹک رہا ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ جس کی دولت ہے‘ وہی اسے ڈھونڈتا پھرے۔ اسے اچھی طرح علم ہے کہ اس کی دولت چالیس ملکوں میں ہے؟ ساٹھ میں؟ ستر میں یا گنتی کے بغیر؟ دولت بہر حال موجود ہے۔ پاکستان کے تمام سیاسی اور نظریاتی لوگ‘ اس کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ کچھ سیاسی گروہوں نے‘ عالمی شہرت کے جاسوسوں کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں لیکن ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ملی۔ ادھر سینیٹ کی خالی نشستوں پر الیکشن ہونے والا ہے۔ سینیٹ کی نصف نشستوں پر نئے یا پرانے امیدوار‘ قبضے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ جو پارٹی بھاگ دوڑ نہیں کر رہی‘ وہ نمکین مسلم لیگ ہے‘جس کا نون لاپتا ہو گیا ہے۔ جسے پتا ہے ‘ وہ بتاتا نہیں اور جسے پتا نہیں‘ وہ اس کی تلاش میں ٹامک ٹوئیاں مارتا پھر رہا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ‘ عمران خان اس گمشدہ دولت کو ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔ دولت ہے کہ اس کا سراغ کسی کو نہیں لگ رہا۔ جس کی یہ دولت ہے‘ اس نے تو کمال کر دکھایا۔ وہ بڑے اطمینان سے بیٹھا دیکھ رہا ہے کہ دولت کی جستجو میں بھٹکنے والے کون کون ہیں؟ انہیں جہاں بھی سراغ ملتا ہے‘ وہ تراپڑ تراپڑ کرتے جا پہنچتے ہیں لیکن ابھی تک کسی کو ''حق حلال‘‘ کی وہ دولت نہیں ملی‘ جو روپوش ہو چکی ہے۔ جسے سب کچھ معلوم ہے‘ وہ اطمینان سے کی بورڈ پر بیٹھا‘ صرف ایک انگلی کا استعمال کرتا ہے‘ دنیا کے دس پندرہ ملکوں میں بھٹکنے والے کی ٹانگوں میں کھلیّاں پڑ چکی ہیں۔ پراسرار دولت ہے کہ دنیا بھر کی سراغ رساں ایجنسیوں اور سرکاری محکموں کی خدمات حاصل کر کے بھی نہیں مل پا رہی۔
جناب آصف زرداری اچانک کسی ملک کے پراسرار دورے پر نکل جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے انہیں کہیں نمکین لیگ کا پتا چل جاتا ہو اور وہ حریف کی پوشیدہ دولت تک پہنچ چکے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ اس دولت کا بڑا حصہ آنے والے انتخابات پر صرف ہو جائے اور زرداری صاحب کی اپنی دولت محفوظ پڑی رہے۔ اس سے زیادہ پریشان کن امکان یہ ہے کہ شیر اپنی ناک رکھ کر‘ سونگھتا پھر رہا ہے لیکن اس کے ہاتھ بھی دولت نہیں لگ رہی۔ شیر صاحب کا اپنا طرزِ زندگی ہے۔ وہ دولت کی تلاش میں بھٹکتا پھر رہا ہے۔ تھک ہار کے بھیڑ بکری کی تلاش کرنے لگتا ہے۔ جہاں کوئی بھیڑ بکری ملی‘ وہیں بیٹھ کے شکم پری کرنے لگتا ہے۔ شکار بڑا ہو تو ''تردا تردا‘‘ نوش جان کر کے خراٹے لینے لگتا ہے۔ دوسری طرف شیر کے نشان پر ووٹ مانگنے والے‘ دردر بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں کبھی سنگل اور کبھی ڈبل کالم خبریں‘ آپ نے پڑھی ہوں گی کہ فلاں سینیٹر‘ فلاں پارٹی میں چلا گیا۔ سب سے زیادہ سینیٹرز کو‘ ان کی اپنی پارٹی نے ہی غچہ دے دیا۔ پتا نہیں یہ کام شیر نے خود کیا ہے یا اس کے شکاری نے؟ اس سلسلے میں دنیا کے سب سے زیادہ مقبول وزیراعلیٰ‘ لاہور میں مشاورت کرتے پھر رہے ہیں کہ سینیٹ کا الیکشن لڑوں یا پانچ چھ ماہ کے بعد قومی اسمبلی کا؟ ان کے اپنے برادر بزرگ‘ انہیں اشارے سے بھی نہیں بتا رہے کہ تم سینیٹ کا الیکشن لڑو گے؟ یا چند مہینوں کے بعد قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ لے کر میدان میں اتروگے؟ یوں لگتا ہے کہ انتخابات قریب آتے ہی ''بھائی چارہ‘‘ بھٹک گیا ہے۔ بھائی کا بھی سراغ نہیں مل رہا اور چارے کا بھی پتا نہیں چل رہا۔ سینیٹ کے سارے امیدواروں کو ''بھائی جان‘‘ اصل نشانے کا سراغ نہیں لگنے دے رہے۔
عین وقت پر آکر بھائی جان نے سارے شیر‘ پاکستان کے چڑیا گھروں میں پھیلا دئیے ہیں۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن نے پیشہ ورانہ ذمہ داری نبھاتے ہوئے وال کلاک پر ٹائم فکس کر رکھا تھا۔ جیسے ہی انتخابی نشان کی گھنٹی بجی‘ انہوں نے فوری طور پر تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو برقی پیغام بھیج دیا کہ اب انتخابی نشان نہیں ملیں گے۔ یہ پیغام ملتے ہی ببر شیر پلٹ کر مسکین شیر بن گیا۔ اب ہر طرف شیر ہی شیر ٹہلتے پھر رہے ہیں۔ کوئی اسے دبوچ کر اپنے بیلٹ پیپر پر رکھنے کو تیار نہیں۔ یہ خبر اڑتے ہی‘ ان تک تیزی سے پہنچ گئی‘ جن کے رنگ اڑے ہوئے تھے۔ ایسے لوگ جگہ جگہ دریافت کرتے پھر رہے تھے ''کہیں ہمارا شیر تو نہیں دیکھا؟‘‘
آپ اب شیر ڈھونڈ کر کیا کریں گے؟ وہ تو قصائیوں کی دکانوں پر بیٹھے انتظارکر رہے ہیں کہ ادھر ذبح شدہ بکرے‘ قصائی کی دکان پر آئے اور وہ جھپٹ کر شکم پری کریں۔
غالباً پاکستان کی انتخابی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کو اپنی پارٹی کا نشان نہیں مل رہا۔ یہ بھی عجیب طرفہ تماشا ہے کہ درجنوں امیدوار شیروں کی تلاش میں گھوم رہے ہیں اور شیر ہے کہ امیدوار کی شکل دیکھتے ہی بھاگ نکلتا ہے۔ آپ کو گلیوں‘ بازاروں اور سڑکوں پر‘ شیر چھپتے ہوئے نظر آئیں تو فوراً سمجھ لیں کہ ''یہ بیلٹ سے بھاگا ہوا شیر ہے‘‘۔ پاکستان میں شیروں کی اتنی بڑی تعداد‘ امیدواروں سے چھپتی پھر رہی ہے اور کوئی اپنے بیلٹ پر شیر کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔ ادھر بلّا پارٹی کے امیدوار ہاتھوں میں بلے اٹھائے پھر رہے ہیں۔ ان بلّوں کو سرخ رنگ کی گیند دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ دیکھیں گے کہ بلّا گیند پر لگتا ہے یا کسی کے سر پر؟ ایک نشان تیر کا ہے‘ جسے زرداری صاحب اندھیرا ہوتے ہی‘ کمان ساتھ لے کر جنگلوں کی طرف نکل جاتے ہیں۔ جہاں کوئی نیند کا مارا شیر لڑکھڑاتا ہوا دکھائی دیتا ہے‘ اپنا تیر اس کے سینے میں داخل کر دیتے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات میں شیر کے نشان پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ بیشتر امیدوار کئی کئی بلّے اٹھائے پھر رہے ہیں۔ جہاں بیلٹ پیپر نظر آتا ہے‘ ٹھک سے اپنی مہر لگا دیتے ہیں۔ الیکشن کمشنر کے دفتر سے آوازیں نکل رہی ہیں ''بھاگو بھاگو‘ شیر دوڑا‘‘۔
________________
ایک ٹوٹا پیش خدمت ہے:۔
مشاہرے میں ایک شاعر نے شعر پڑھا۔ جس میں حکومت کو چور کہہ دیا۔
شاعر سٹیج سے اترا تو ایک سنتری نے پوچھا ''آپ نے کس حکومت کو چور کہا ہے؟‘‘
''جناب! میں نے آپ کی حکومت کو چور نہیں کہا‘‘۔
سنتری نے ہنستے ہوئے جواب دیا ''مجھے معلوم ہے کہ کون سی حکومت چور ہے‘‘۔
________________
آج میاں صاحب اپنا نام بانٹتے پائے گئے مگر بے ترتیب۔ فرمایا میرا نام بانٹ لو۔ نواز لے لو۔ شریف لے لو۔ لیکن پہلا نام مت لینا۔ اس میں میری جان ہے۔