اگر انتخابات ہو رہے ہیں تو یقیناً 2018ء میں ہی ہوں گے اور پنجاب میں انتخابی مہم کے دوران 1964ء کے وہی دن لوٹ آئیں گے‘ جب پی ٹی وی کی اجارہ داری ہوتی تھی۔ محکوم اور محروم پاکستانی عوام‘ دنیا کا کوئی ٹی وی سٹیشن نہیں دیکھ پائیں گے۔ اُس وقت فیلڈ مارشل ایوب خان حکمران تھے۔ صرف ایک سرکاری ٹی وی چینل ہوتا تھا۔آج اگر سیٹلائٹ چینلز اور مقامی ٹی وی چینلز کی نشریات ملا کر دیکھی جائیں توکوئی بھی شخص‘ انتخابی مہمات میں حصہ لینے والی کسی بھی پارٹی کی انتخابی نشریات‘ خواہش کے باوجود نہیں دیکھ پائے گا۔ عوام 2018ء کی انتخابی مہم میںسیاسی پارٹیوں کے مؤقف‘ خیالات اور مستقبل کے پروگرام اپنی مرضی سے نہیں دیکھ سکیں گے کیونکہ میں نے اس کا نمونہ آج ٹی وی چینلز پر دیکھ لیا۔ توقع کے مطابق انتخابات میں تین ہی بڑی پارٹیاں حصہ لے رہی ہوں گی اور ساری پارٹیوں پر نمکین لیگ چھائی ہو گی۔ ملک کے دوسرے بڑے صوبے میں ٹی وی نشریات پر‘ بھٹو صاحب اور بی بی بے نظیر کی نشانیاں ‘ پیپلز پارٹی کے جیالوں کو انتخابی مہم میں ضرور دیکھنے کو مل جائیں گی۔ پیپلز پارٹی کی جانشین قیادت نے سمجھ داری سے کام لیتے ہوئے پانچ سات سندھی زبان کے ٹی وی چینلز شروع کر دئیے ہیں۔ بلاول بھٹو پنجاب کے بعض چینلز پر تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد نظر آتے رہے لیکن عمران خان گونگے ''مقرر‘‘ تھے۔
عمران خان کے حامی‘ چند ایک چینلز پر ان کا چہرہ دیکھ لیتے۔ اس دوران کبھی کبھی ان کی آواز بھی سنائی دے جاتی۔ آصف زرداری نے اقتدار کا ایک سیزن لگا رکھا ہے۔ اس لئے بلاول بھٹو‘ آواز کے بغیر کسی چینل پر تقریر کرتے اور بولتے ''نظر‘‘ آ جاتے۔ سب سے نمایاںعمران خان تھے۔ کبھی کبھی کسی چینل کی آدھی یا ایک تہائی سکرین پر بطور ''جھلکیاں‘‘ نظر آ جاتے مگر عمران کیا کہنا چاہتے ہیں؟ یہ کسی چینل نے نہیںسننے دیا۔ اور سنائی بھی کیوں دیتا؟ سب سے زیادہ جس پارٹی کی تقریر‘ حاضرین اور ناظرین نے‘ بے تحاشا دیکھی اور سنی‘ وہ نمکین لیگ تھی۔ اس پارٹی کا بڑی بڑی مشکلات سے پالا پڑ رہا ہے۔ مقدمات کا سیزن چلا تو اس پر دولت کمانے کے الزامات لگے لیکن یہ الزامات صرف مخالفین کے لگائے ہوئے ہیں۔ چھان بین پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالتوں میں ہوتی رہی ہے۔ بانی اور قائد جماعت‘ جناب نواز شریف‘ وزارت عظمیٰ کے لئے نااہل ہو گئے۔ سیاسی پارٹی کی صدارت بھی ممنوع ہو چکی ہے۔ پارٹی کے سربراہ خود پیش گوئی کر رہے ہیںکہ عوامی رابطوں کے دوران شاید وہ تقریریں بھی نہ کر سکیں۔ اسی مجبوری کی بنا پر دختر نیک اختر کو‘ جلسے جلوسوں میں جانے کی اجازت مل گئی ہے۔ ابتدا میں اس نیک بخت نے حاضرین اور جلوسوں میں خاص رش نہیں لیا۔ جیسے ہی کرائے پر لئے ہوئے ''مال ‘‘کی فراوانی ہونے لگی‘ نمکین لیگ کے رش میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ پہلے پہلے تو رش لینے کے لئے قائد جماعت‘ نواز شریف کو ہر جلسے اور جلوس میں اپنی رونمائی کرنا پڑتی لیکن آج کا جلسہ دختر نیک اخترکی بھرپور ''تائید و حمایت‘‘ کا افتتاحی دن تھا۔
مجھ سے پوچھیں تو یہ حالیہ جلسوں میں سب سے بڑا تھا۔ اس میں شریک حاضرین کا وزن یقینی طور پر باقی جلسوں کے حاضرین سے زیادہ تھا جبکہ دوسرے حاضرین کا وزن پلاسٹک کی طرح ہلکا تھا۔ آج کے نمکین لیگ کے جلسے میں‘ ایک نئی چیز بھی دکھائی دی اور وہ یہ کہ مائیک کو کھلا رکھتے ہوئے دختر نیک اختر‘ اپنے ملازمین کو نام لے لے کر پکارتی رہیں اور حاضرین کو بھی ہدایات سے نوازتی رہیں۔ انہوں نے اپنے رضا کاروں کو ہدایات دیں کہ ابھی تم نے جلسوں کو پر رونق بنانے کا ہنر نہیں سیکھا۔ عوامی مقبولیت کو دس گنا زیادہ بھی نہیں بنایا۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ پارٹی سرگرمیاں گھر گھر پہنچنی چا ہئیں۔ اگر آپ کے پاس سوشل میڈیا اکائونٹ نہیں تو فوراً ٹویٹر اور فیس بک پر اپنا اکائونٹ کھولیں اور اس جنگ میں نواز شریف کا ساتھ دیں۔ بلاول بھٹو اور دختر نیک اختر کی انتخابی مہم گھر گھر پہنچائی جا سکتی ہے۔ عمران خان کی جیبیں نمکین پارٹی کی حکومت نے اچھی طرح چھان پھٹک کر دیکھ رکھی ہیں۔ ان کی پارٹی صرف جلسہ منعقد کر کے ان کی تقریر ووٹروں کو سنوا سکتی ہے۔ ابھی انتخابات میں کئی مہینے پڑے ہیں۔ انتخابات کے نزدیک آنے تک غریب سے غریب آدمی کی نگاہیں بھی‘ نظاروں سے جھولیاں بھر لیں گی اور غنائیوں کی لذت سے ایسے لطف اندوز ہوں گی جیسے ہمارے مقبول ترین لیڈر‘ اپنی خاص محفلوں میں لحن کا جادو جگاتے ہیں، جبکہ عمران خان کے پاس‘ اس جادوگر کی سریلی بانسری کے نغمے ہیں‘ جو انسانوں کو مسحور کر کے ایک چھوٹی سی پرچی پر‘ پیار اور محبت کی مہر ثبت کر کے‘ اپنے خوابوں کے رشتوں میں باندھ لیتے ہیں۔ پیٹ کبھی بھرتا نہیں اور سروں کے لحن میں مست ہو جاتا ہے۔