"NNC" (space) message & send to 7575

کالی دولت

پاکستانی تجارت کے بارے میں دنیا عجیب و غریب خیالات میں الجھ رہی ہے۔ ابھی تک ہمارے نظام تجارت کو دنیا کی دیگر مارکیٹوں‘ منڈیوں اور سٹاک مارکیٹوں میں اس طرح نہیںدیکھا جا رہا‘ جیسے دنیا میں اور طرح کی منڈیاں ہوتی ہیں۔ بھارت‘ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ جاپان اور امریکہ میں سائنس اپنے اپنے انداز میں منڈیوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کافی عرصے تک بیرونی دنیا کے ممالک‘ پاکستان کے بارے میں یہی سمجھتے رہے کہ مغربی اور دوسری آزاد دنیا کی طرح‘ پاکستانی مارکیٹ بھی دور حاضر کے اصولوں پر کام کرتی ہو گی۔ پاکستانی مارکیٹ دوسری آزاد مارکیٹوں کی طرح بندھے ٹکے اصولوں پر کام کرتی ہو گی۔ وہی اصول جن پر دنیا کی دوسری مارکیٹیں عمل کرتی ہیں‘ پاکستان میں بھی کار فرما ہوں گے لیکن پاکستانی سیاست کی طرح پاکستانی مارکیٹوں کے تجارتی اصول‘ ہمارے مقامی طرز تجارت کے زیر اثر ہیں۔ مثلاً ایک ہمارے وزیر خزانہ ہوتے تھے‘ بلکہ ہوتے ہیں۔ وہ کسی بھی حالت میں ہوں‘ کسی بھی طرح کی صحت کی کیفیت سے گزر رہے ہوں‘ پاکستان کی وزارت خزانہ اور مالیاتی نظام کو چلا رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے وزیر خزانہ قومی خزانے اور مالیاتی نظام کو اپنی صحت کے حساب سے چلاتے ہیں۔ جب انہیں عارضہ قلب لاحق ہو تو وہ پاکستانی خزانے اور مالیاتی نظام سے طویل فاصلوں پر جا نکلتے ہیں۔ لندن کے ایک ہسپتال میں ایک کمرہ‘ لامحدود عرصے کے لیے بک کرا لیتے ہیں۔ لامحدود عرصے کے لیے لباس منتخب کرتے ہیں اور لامحدود عرصے کے لیے ایک ہی پوز بنا کر پلنگ پر لیٹتے ہیں۔
ہمارے وزیر خزانہ‘ کاروباری معاملات اور پاکستانی روپے کے ا تار چڑھائو کے معاملے پر‘ اپنے مہمانوں سے مذاکرات کرتے ہیں۔ ہسپتال کے عملے کو ایک تصویر دکھا کر حکم دیتے ہیں کہ مجھے پانچ منٹ کے اندر اسی پوز‘ اسی لباس اور اسی زاویے سے پلنگ پر لٹا دیں۔ اس دوران وہ اپنے سارے معاملات پر ہدایات اور احکامات جاری کرتے ہیں۔ مہمانوں کے جاتے ہی ہسپتال کے عملے کو روک لیا جاتا ہے اور اپنا معمول کا لباس پہن کر کسی چھوٹے سے‘ گمنام سے‘ ویران سے اور بیمار سے پی سی او پر جا کر آپریٹر کو حکم دیتے ہیں کہ تم ٹیلی فون لائن میرے حوالے کر کے‘ کھلی چھوڑ دو اور باہر سے تالا لگا کر چلتے بنو۔ اس کے بعد وہ اپنی تمام مالیاتی صلاحیتیںانتہائی پھرتی سے استعمال کرتے ہیں۔ منڈیوں کے چڑھتے اترتے بھائو پوچھتے ہیں اور اپنے محسن اور لیڈرسے دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹوں کی اترتی چڑھتی قیمتوںکا جائزہ لے کر پاکستان کی مارکیٹوں کا تجزیہ پیش کرتے ہیں اور پھر دو چار سو ارب ڈالر کی خریداریوں اور فروختوں کے بارے میں احکامات لیتے ہیں۔ ان کے تمام سودے نفع بخش ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو خریداری اور فروخت دونوں میں‘ ہزاروں ڈالر کا نفع کماتے ہیں۔ جس میں سے 15 سے 20 فیصد اپنے کھاتے میں جمع کراتے ہیں اور باقی سارا منافع اپنے محسن کے سپرد کر دیتے ہیں۔
ہمارے جمہوری نظام کی اصطلاحات سٹاک ایکسچینج کی طرز پر استعمال ہوتی ہیں۔ ہمارے درجہ دوم کے وزیراعظم کسی بھی مہمان ملک کے لیے گارڈ آف آنر کا انتظام کرتے ہیں تو اس کے سست 
قدموں کی گنتی کر کے حساب لگا لیتے ہیں کہ کس ملک کی تجارت میں وہ کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ اپنا پورا تجزیہ کر کے درجہ اول کے وزیراعظم کو اطلاع دیتے ہیں کہ معزز مہمان سے فلاں فلاں سودے کر کے‘ آپ کتنے فائدے میں رہیں گے؟ اور اس کے ساتھ کسی قسم کا سودا کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ یہ محض بیرونی تعلقات کو رسمی سطح پر باقی رکھنے کی کوشش ہے اور ایسا سب کو کرنا پڑا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے بھی اپنی معلومات کا دائرہ وسیع کر رکھا ہے۔ اب حکومتیں‘ سپریم کورٹ کو تمام معاملات سے بے خبر رکھنے کی ترکیب استعمال نہیں کر سکتیں۔ جب بھی بیورو کریسی‘ سٹاک مارکیٹ‘ رشوت خوری اور بیرونی تجارت کے معاملات‘ عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو معزز جج صاحبان ایسے ہر کیس کا گہری نگاہ سے مطالعہ کرتے ہیں اور دو چار دنوں کے اندر ہی تمام معلومات کے جائزے کے بعد‘ صحیح نتیجے پر پہنچ کر فیصلہ لکھ دیتے ہیں۔ اعلیٰ عدالتیں تمام معاملات میں موزوں ترین فیصلے کر کے فریقین کے ساتھ اس طرح کا انصاف کرتی ہیں کہ دونوں میں سے کسی ایک کو بھی شکایت یا گلہ نہ ہو۔ ہمارے ملک میں حکومتوں کا دائرہ اختیار بہت وسیع اور گہرا ہوتا ہے۔ سب سے تیز کاروبار اس وقت ہوتا ہے جب پارلیمنٹ یا سینیٹ کے انتخابات کی منڈی لگی ہو۔ یہ اپنی طرز کا سب سے منفرد کاروبار ہے۔ بڑی بڑی دور سے تاجر یہاں آکر کاروبار میں حصہ لیتے ہیں۔ خود بھی کماتے ہیں اور اپنے میزبانوں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی‘ کاروباری اور فنی مہارتوں میں‘ خواجہ سرائوں کو بھی اپنی صلاحیتیں استعمال کرنے کے مواقع دے دیئے گئے ہیں۔ آج ہی دو تین درجن خواجہ سرائوں کو مختلف فنی صلاحیتوں کے لائسنس جاری کئے گئے ہیں۔ یہ کاروبار ابھی نیا ہے‘ اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کر کے لکھوں گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں