"NNC" (space) message & send to 7575

ایم کیو ایم سینیٹ میں

سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے لئے جو مختلف پارٹیاں باہمی مذاکرات کر رہی ہیں‘ ان میں سے ایک ایم کیو ایم بھی ہے۔ یہ وہ پارٹی ہے جس نے سینیٹ کے انتخاب کی تاریخ آتے ہی اپنے امیدواروں کا فیصلہ کرنے کے لئے‘ آپس میں مذاکرات یا فسادات شروع کئے۔ یہ آخری لمحے تک جاری ہیں۔ یعنی سینیٹ کے ممبران کے انتخاب پر‘ ہمہ جہتی مذاکرات ہو رہے ہیں۔ سب پارٹیوں نے اپنے اپنے فیصلے کر لئے۔ ان میں ساٹھ سے زیادہ اراکین والے گروپ بھی تھے۔ پچاس اراکین والے گروپ بھی تھے۔ غرضیکہ متعدد گروپ ایسے تھے‘ جنہوں نے آٹھ دس دن میں اپنے امیدواروں کے نام فائنل کر کے اگلے مرحلے پر کام شروع کر دیا۔ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب۔ ایم کیو ایم کے مذاکرات ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچے‘ ان شاء اللہ دوران حیات‘ پہنچ جائیں گے۔ سینیٹ کے اراکین کا انتخاب کر لیا گیا لیکن ایم کیو ایم والے‘ ابھی تک باہم دست و گریباں ہیں۔ اس سے پہلے ایک اور کام ہوا۔ وہ یہ کہ ایم کیو ایم کون سی ہے؟ اس کے دو گروپوں کے لئے دو نام رکھے گئے۔ ایک کا ہیڈ کوارٹر بہادر آباد ہے اور دوسرے گروپ کا پی آئی بی کالونی۔
ٹی وی کے ناظرین جوتمام سرگرمیوں سے آگاہی کے خواہش مند تھے‘ ان کی نیندیں بہت خراب ہوئیں۔ کسی کے پیٹ میں درد ہو گیا۔ کسی کے سر میں۔ کسی کی ٹانگوں میں درد اٹھنے لگا۔ کروٹ کے بل لیٹنے والے‘ بازوئوں کے درد کا شکار ہو گئے۔ میں ابھی تک حیران ہوں کہ ایم کیو ایم کے اراکین بیک وقت درجنوں ٹی وی چینلز پر اپنی چھب دکھلانے کا موقع ضائع نہیں کر رہے تھے۔ اگر بعض ناظرین میری طرح ایم کیو ایم کے تمام سرگرم اور سرکردہ اراکین کی سرگرمیاں دیکھنے کو مستعد رہے ہوں‘ انہوں نے کس طرح یہ بندوبست کیا؟ کہ وہ ایک ہی وقت ٹیلی ویژن کی نشریات کو بیک وقت دیکھنے میں کامیاب رہے۔ سب نے بظاہر توجہ رکھنے کا اعتراف کیا مگر کسی نے یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ تمام ٹی وی چینلز پر انہوں نے اپنے اپنے پسندیدہ لیڈروں کو بیک وقت کیسے دیکھا؟ طویل جستجو کے بعد‘ آخر کار یہ راز کھلا کہ ان حضرات نے ٹیلی ویژن سروس فراہم کرنے والوں کے ساتھ انتظامات کر رکھے تھے۔ وہ مسلسل دس بارہ ٹی وی چینلز پر شام سے صبح تک تمام نشریات کو ریکارڈ کرتے رہے۔ ٹی و ی چینلز کے ساتھ ریکارڈنگ کا سودا کرتے۔ فیس ادا کر د ی جاتی اور خدمات فراہم کرنے والے چینلز بیک وقت ایم کیو ایم کے لیڈروں کی تمام نشریات کی بیک وقت ریکارڈنگ جاری رکھتے۔ انتخابی سرگرمیاں شروع ہونے سے لے کر‘ جو ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آئیں‘ ایم کیو ایم کے لیڈروں کی سرگرمیاں دیکھنے والے مسلسل جاگ رہے ہیں ۔ اپنے لیڈروں کی سرگرمیاں دیکھ اور سن رے ہیں۔ ناظرین کا خیال تھا کہ جب یہ سرگرمیاں ختم ہوں گی اور امیدواروں کے نام فائنل ہو جائیں گے تو وہ سکھ کا سانس لے پائیں گے۔ اور یہ اندازہ بھی کر سکیں گے کہ ا یم کیو ایم کے کون کون اراکین‘ سینیٹ کی رکنیت کے اہل ہو جائیں گے۔
سینیٹ کے امیدواروں کی فہرستیں مرتب ہو گئیں۔ ساری پارٹیوں اور سارے پنجاب کے امیدوار طے ہو گئے لیکن ایم کیو ایم نے اپنے امیدواروں کی فہرستیں مکمل نہ کیں۔ ایک گروپ کے اراکین‘ الیکشن کمیشن کے دفتر سے نکلتے تو دوسرے گھس جاتے۔ دوسرے نکلتے تو پہلے والے گروپ کے اراکین‘ الیکشن کمیشن کے آفس میں پہنچ کرخالی کرسیوں پر براجمان ہو جاتے‘ جو ایم کیو ایم کا پہلا گروپ چھوڑ کر گیا ہوتا۔ یہ بھائی لوگ‘ الیکشن کمیشن کے دفتر کے اندر جاتے تو باہر جانے والے اسی برآمد ے میں بیٹھ جاتے اور جب وہ نکلتے تو برآمدے میں بیٹھ کر باہمی بحث کرتا ہوا گروپ اندر چلا جاتا۔ ایم کیو ایم کی انکوائریاں بھگتانے کے لئے الیکشن کمیشن کا عملہ ایک لمحے کی فرصت بھی حاصل نہ کر پاتا۔ پہلے دن تو یہ مشقت وہ کر گزرے۔ دوسرے دن وہ درد بھرے جسموں کے ساتھ پھر اس ترتیب سے اندر جاتے۔ ایک گروپ دفتر کے عملے کو مصیبت میں ڈالتا اوربرآمدے میں بیٹھا ہوا دوسرا گروپ ‘ ایک دوسرے کے ساتھ بحث کرنے میں مبتلا ہو جاتا۔
تادم تحریر ایم کیو ایم کے مذاکرات جاری ہیں۔ دونوں گروپ باری باری الیکشن کمیشن کے عملے سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ 8 مارچ کا دن گزر چکا ہے۔ شام کا وقت ہو چکا ہے۔ ابھی تک یہ دونوں گروپ مختلف فریقوں سے مذاکرات میں مصروف ہیں۔ درجن بھر ٹی وی چینلز کا عملہ ایک ہی وقت میں‘ ایم کیو ایم کے مذاکرات کی نشریات چلا رہا ہے۔ مذاکرات والے‘ مذاکرات میں مصروف رہتے ہیں۔ ٹی وی پر ان کی سرگرمیاں دیکھنے والے‘ نشریات دیکھ رہے ہیں۔ مختلف پارٹیوں کے نمائندوں سے ملاقاتوں کے اوقات مسلسل طے کئے جا رہے ہیں۔ نہ خود سو رہے ہیں‘ نہ دوسرے سیاست دانوں کو سونے دے رہے ہیں۔ پہلی مشق کے بعد وہ صرف اپنے ایک رکن کو‘ سینیٹ کا امیدوار بنانے میں کامیاب ہوئے۔ دوسرا مرحلہ ابھی تک جاری ہے۔ اگر یہی رفتار رہی تو سینیٹ کی چھ سال کی زندگی پوری ہو جائے گی اور ایم کیو ایم والے‘ اپنے آخری نمائندے کا نام‘ آئندہ الیکشن کے لئے لکھ کر ریکارڈ میں لے آئیں گے۔ چھ سال کے بعد جس کی زندگی رہی‘ وہ سینیٹ کا امیدوار بننے میں کامیاب ہو جائے گا۔ مزید تفصیلات لکھنے کی ہمت نہیں۔ ایم کیو ایم اسی طرح سے سینیٹ کی رکنیت حاصل کرتی رہے گی۔ ساری سیاسی جماعتوں کے ساتھ وہ مفاہمت کے لئے مذاکرات کریں گے۔ چھ سال پہلے کی طرح‘ اپنے درد بھر ے جسموں اور سروں کو لئے آئندہ الیکشن میں ''حصہ‘‘ لینے کی تیاریاں کریں گے۔ ایم کیو ایم والوں کے صرف دس بارہ امیدواروں کے معاملات طے پائیں گے اور باقی ایک سو کے قریب امیدوار سارے مراحل سے گزر کر‘ اپنی اپنی سیٹ کا فیصلہ کر چکے ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں