"NNC" (space) message & send to 7575

سمندروںاور صحرائوں سے مالا مال بلوچستان

عوام کومبارک ہو کہ وفاق کی تمام اکائیوںاور چاروں صوبوں نے مرکزی اقتدار میں پہلی مرتبہ بلوچ عوام کا حق ادا کیا۔ یہ محض ابتدا ہے۔ جب سے وفاق پاکستان معرض وجود میں آیا ہے اس وقت سے لے کر کل تک‘ ایوان بالا میں‘ بلوچ عوام کے منتخب قائدین کو‘ آبادی کے لحاظ سے پہلی بار چھ سال کے لئے سربراہی کا حق حاصل ہوا۔بلوچ عوام کو یہ حق دلانے والے سب سے پہلے سیاست دان عمران خان ہیں۔ پاکستان کا وفاق بننے کے بعد آج تک‘ بلوچستان کو وفاقی اختیارات کا حق نہیں دیا گیا۔ البتہ دو چیئرمینوں کا تعلق خیبر پختونخوا کے ساتھ رہا۔یہ خوش نصیب حبیب اللہ خان اور غلام اسحق خان تھے۔ ان کے بعدوسیم سجاد نے تین مرتبہ بطور چیئرمین سینیٹ کی ذمہ داریاں انجام دیں۔ ان کا مجموعی عرصہ کم و بیش 8سال3ماہ ہے۔ان کا تعلق پنجاب سے ہے۔چوتھے چیئرمین سینیٹ‘محمد میاں سومرو تھے۔ جناب صادق سنجرانی پہلے چیئرمین سینیٹ ہیں‘ جو بلوچستان سے منتخب ہوئے۔ بلوچ عوام‘ وفاق کے اندر کبھی بھی سربراہی کا اختیار حاصل نہیں کر پائے۔یہ صوبہ جو ہمارے وفاق میں رقبے اور وسائل کے اعتبار سے سب سے بڑا ہے۔اس کے عوام قیام پاکستان سے لے کر آج تک‘ اپنے حقوق سے محروم رہے۔ہمارے سیاست دان‘ ہماری بیوروکریسی اور ہمارے مالیاتی نظام کے منتظمین میں سے کسی نے بھی‘ بلوچستان جیسے قدرتی وسائل سے مالامال صوبے کو‘ کبھی خاطر میں نہیں لائے۔
سونے سے لے کر سوئی گیس تک‘ جو بھی قدرتی وسیلہ قدرت نے ہمیں عطا فرمایا‘ اس میں سے بلوچ عوام کو شاید ہی کبھی کچھ نصیب ہوا ہو۔سوئی گیس65,60سال پہلے پاکستان کے باقی تینوں صوبوں کو میسر آتی رہی لیکن بلوچستان کو سوئی گیس اس وقت ملی‘ جب اس کے ذخیرے ختم ہونے والے ہیں۔سونا دریافت ہوا تو اس کی اجارہ داری بیرونی ٹھیکے داروں کو دے دی گئی ۔ سونے اور کوئلے کے ذخیرے مسلم لیگ (ن) کے دوسرے سربراہ‘ جناب شہباز شریف نے چنیوٹ کے علاقے میں دریافت کئے۔ ان کی یہ خبر سن کر عوام اتنے پرامید تھے کہ سب نے خوش حالی کے خواب دیکھنا شروع کر دئیے۔ وہ دن اور آج کا دن۔ ابھی تک ایک تولہ سونا تو کیا ؟ ایک تولہ کوئلہ بھی حاصل نہیں کیا جا سکا؟کسی بھی بڑے کام کو انجام دینے کے لئے پہلا خیال‘ کسی بھی قیمتی دریافت کا ذریعہ بنتا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخابات قریباً آٹھ نومرتبہ ہوئے۔ بلوچ عوام کا حصہ کچھ بھی نہ ہوتا تو اس دوران کم سے کم‘ ایک یا دو پارلیمانی مدتوں میں‘ انہیں وفاقی اقتدار میں کوئی نہ کوئی پوزیشن‘ تھوڑے عرصے کے لئے ہی سہی‘ ملنا ضرور چاہئے تھی۔ بلوچوں میں سے صرف میر ظفراللہ خان جمالی‘وزیراعظم کی حیثیت سے وفاق کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے۔ لیکن پورا اقتدار ایک فوجی آمر کے پاس تھا۔اپنی بے اختیاری دیکھ کر میر صاحب‘ اس منصب سے خود ہی دستبردار ہو گئے۔بلوچ عوام کو یہ سمجھنا چاہئے کہ انہیںجن محرومیوں کا آج تک شدید احساس ہے‘ اس کا ازالہ کرنا آسان نہیں۔
بلوچستان میں اعلیٰ تعلیم آج تک دستیاب نہیں۔ وہاں کے بچے کراچی اور لاہور کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر تے ہیں یا خو ش حال گھرانوں کے بچوں کو بیرونی ملکوں میں جانا پڑتا ہے۔دنیا میںجس ملک کی معیشت ‘ صنعت اور سائنس کی ترقی ہوئی یا ہو رہی ہے‘ وہ صرف اعلیٰ تعلیم کی بدولت ہے۔سنگا پور‘ ملائشیا اورتائیوان جیسے ملکوں کا جائزہ لے کر دیکھیں تو جواب صرف ایک ملتا ہے کہ علم۔ پاکستان کے تمام حکمرانوں نے آزادی کے ستر برسوں کے دوران‘ صرف اور صرف یہاں کا سرمایہ سمیٹا ۔اسے باہر کے بنکوں میں جمع کرایا۔ تعلیم کا جائزہ لیں تو میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ بلوچستان میں اس کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ستر برسوں کے بعد جا کر کہیں سندھ میں گیس دریافت کی گئی۔ کوئلے کا ہم ابھی تک فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔ سندھ کی نیم ترقی یافتہ بندرگاہ کو تھوڑے سے وسائل میسر آئے جو ابھی تک پورے پاکستان کوفیض پہنچا ر ہی ہے۔ دوسری بندرگاہ ‘قدرت نے بلوچستان کو عطا فرمائی ہے۔ ہمارے گردونواح میں جتنے بھی ساحلی ممالک موجود ہیں‘ان میں سے کسی ایک کے پاس بھی قدرتی بندرگاہ موجود نہیں۔ خلیج کے گردونواح میں جتنی بندرگاہیں بھی ہیں‘وہ مصنوعی ہیں۔ وہاں بڑے جہاز جا کر کنار ے پر لگتے ہیں۔ ان کا سامان گہرے سمندر میں کھڑی کشتیوں میں لاد کر کنارے تک لایا جاتا ہے۔قدرت کی طرف سے خود کفیل بندرگاہ صرف گوادر کی ہے ۔ پاکستان کو آزادی کے جو ستر سال نصیب ہوئے ہیں‘ ہم نے ان میں سے کسی سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا۔ روس نے سٹیل مل بنا کر دی۔ ہم اس کا لوہا اور عمدہ زمین فروخت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
بے شمارنعمتیں صرف اس لئے ہمارے بلوچ بھائیوں اور بہنوں کو نصیب نہیں کہ انہیں قدرتی سرمائے سے فائدہ اٹھانے کا نہ علم ہے اورنہ تربیت۔وفاق پاکستان میں بلوچ سرزمین کے فرزند‘ جناب صادق سنجرانی کو پہلا قدم یہ اٹھانا چاہئے کہ اپنے ملک اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بلوچ طلبا اور طالبات اور مختلف پیشہ وارانہ مہارتیں رکھنے والے نوجوان مردو زن کو‘دو دو تین تین سال کے عرصے کے لئے بلوچستان میں بلائیں۔ ان کی رہائش اور ضروریات زندگی کا مناسب بندوبست کریں۔ دنیا بھر میں جتنی قوموں نے ترقیاں کی ہیں ‘ ان کی ساری رپورٹیں حاصل کریں اور پھر علاقوں میں زمین اور سمندر کی تہہ میں موجود قدرت کے ذخیر ے دریافت کر کے‘ خدا کی عطا کردہ نعمتوں سے مادر وطن کی جھولیاں بھریں۔قدرت بہت جلد آپ کو ٹیکنالوجی اور وسائل سے مالا مال کرنے والی ہے۔ بلوچ اپنی زمین کی تہہ میں پڑے سرمائے اور ہنر مندیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ستر سال کی محرومیوں کا بوجھ اتار سکتے ہیں۔ ملائشیا جو ایک پسماندہ ملک تھا۔ آج مالا مال ہے۔ وزیراعظم‘ مہاتر نے صنعت و زراعت کی ترقی کے لئے چین سے سرمایہ اور ہنر مندیاں حاصل کر کے‘ ملک کو تیز رفتاری سے خوش حال بنا دیا۔ جن شرائط پر ملائشیا ‘چین سے سرمایہ اور صنعتیں حاصل کر رہا ہے‘ اس کا صرف دو فیصد چین لیتا ہے اور باقی سنگاپور سب اپنے ہی ملک کے عوام پر خرچ کرتا ہے۔سنگا پور میں جدید صنعت کاری‘جہازرانی اور نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت سے حکومت جو کچھ حاصل کرتی ہے‘ اپنی ساری آبادی کو بقدر حصہ تقسیم کرنا شروع کر دے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں