افراد سے تو غلطی ہو جاتی ہے لیکن اگر ادارے بھی بنیادی غلطی پر اتر آئیں تو کیا امید کی جا سکتی ہے؟ چند روز پہلے سینیٹ آف پاکستان کے انتخابات ہوئے۔ ان میں پاکستان کی تمام قابلِ ذکر سیاسی جماعتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پاکستان میں جو سیاسی جماعتیں موجود ہیں‘ سب نے اپنی طاقت کے مطابق‘ سینیٹ پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازیاں لگائیں۔ موجودہ حکمران پارٹی نے سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لئے زبردست مقابلہ آرائی کی۔ اس وقت سیاسی صورت حال میں پارٹی پوزیشن یہ ہے کہ واضح اکثریت رکھنے والی پارٹی مسلم لیگ (ن) ہے جو مستقبل قریب میں مسلم لیگ (شیر سے ش) بننے والی ہے۔ دوسری پاکستان پیپلز پارٹی ہے اور اسی کے آس پاس تحریک انصاف ہے۔ ابھی تک پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے مابین جو انتخابی مقابلے ہوئے‘ وہ دو تین سے زیادہ نہیں۔ ان دونوں کے براہ راست مقابلوں میں‘ ایک مرتبہ وفاقی اقتدار پیپلز پارٹی نے حاصل کیا اور دوسری مرتبہ مسلم لیگ (ن) نے۔ چار پانچ ماہ کے بعد نئے انتخابات ہونے والے ہیں۔ اندازہ ہے ان انتخابات میں تین قومی پارٹیاں حصہ لیں گی۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں یہی پارٹیاں ایک دوسری کے مقابل تھیں۔ اور تینوں نے ہی براہ راست ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے میں حصہ نہیں لیا۔ ہر پارٹی پردہ نشین تھی۔ ہر پارٹی ایک دوسرے کے مقابل بھی تھی اور کوئی بھی پارٹی کسی کے ساتھ آمنے سامنے مقابلے کے لیے میدان میں نہیں اتری۔ مسلم لیگ (ن) کو اعتماد تھا کہ وہ سینیٹ میں تو کسی کو خاطر میں لائے بغیر‘ فیصلہ کن اکثریت حاصل کر لے گی۔ جبکہ دیگر دونوں پارٹیاں دائو لگانے کی کوشش کریں گی مگر قابل ذکر پوزیشن انہیں حاصل نہیں ہو گی۔ یہی وجہ تھی کہ (ن) لیگ نے سینیٹ کے انتخابات کو اہمیت ہی نہیں دی۔
پیپلز پارٹی کے سربراہ‘ آصف علی زرداری کو امید تھی کہ وہ ادھر ادھر کے ووٹ توڑ کر‘ سینیٹ میں زیادہ سے زیادہ‘ اپوزیشن لیڈر کی کرسی حاصل کر لیں گے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کسی کو اہمیت ہی نہیں دے رہی تھی کہ کوئی سیاسی پارٹی‘ سینیٹ میں اس کا مقابلہ ہی نہیں کر پائے گی۔ اس کی قیادت کی زیادہ توجہ مقدمات پر لگی تھی۔ اچانک تحریک انصاف کے سربراہ‘ عمران خان نے ایک تیز گیند پھینکا اور پہلے سے میدان میں‘ ایک دوسرے کے مقابل کھڑی پارٹیو ں کو‘ چکرا کے رکھ دیا۔اس سے پہلے تحریک انصاف نے قومی انتخابات میں حصہ تو لیا تھا لیکن اس کے لئے قومی سطح کا اصل مقابلہ سینیٹ کے انتخابات میں ہوا۔ خان صاحب نے اچانک ریت کے سمندر میں غوطہ لگایا اورکوئٹہ کے پرسکون پانیوں میں ہلچل پیدا کر دی۔ وہ انتخابی مقابلے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ پاکستان کی انتخابی مقابلہ آرائی میں بلوچستان کی نشستیں سب سے کم ہوتی ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی اور سینیٹ میں بھی۔ زرداری صاحب کی نظر میں تحریک انصاف تو ایک چھوٹے بچے کی طرح تھی۔ جبکہ ان کے مدمقابل (ن) لیگ تھی۔ زرداری صاحب نے نعرے تو بڑے بڑے لگائے لیکن (ن) لیگ نے نعروں کو خاص اہمیت نہ دی۔ اچانک انتخابات کے عین قریب‘ کوئٹہ کی صوبائی قیادت سے رابطہ قائم کیا جس نے ابھی ابھی صوبائی اسمبلی کی حکومت توڑ کر اپنی حکومت قائم کی تھی۔
یہ نوجوان بلوچستان کی صوبائی سیاست میں قابل ذکر لیڈر نہیں تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی صوبائی
حکومت‘ جسے وفاقی حکومت کی سرپرستی حاصل تھی‘ اس کے خلاف عبدالقدوس بزنجو کی قیادت میں‘ ایک گروپ نے سر اٹھایا اور جمی جمائی لیگی حکومت کا تختہ الٹ کر‘ اپنی مخلوط حکومت قائم کر لی۔ ابھی نئے لیڈر قدم جما ہی رہے تھے کہ خان صاحب نے یہ کہہ کر انہیں حیرت زدہ کر دیا کہ آپ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں کیوں حصہ نہیں لیتے؟ میں اپنے سب سینیٹرز آپ کے سپرد کرتا ہوں۔ آپ خود اپنے ووٹوں کے ساتھ‘ ادھر ادھر سے کچھ ووٹ لے لیں تو سینیٹ کی چیئرمین شپ‘ ورنہ ڈپٹی چیئرمین شپ تو ضرور ہی لے لیں گے۔ اس پر زرداری صاحب نے بھی تگ و دو شروع کر دی۔ مسلم لیگ (ن) بڑے آرام سے مولانا فضل الرحمن‘ میر حاصل بزنجو اور دو چار پرانے ساتھیوں پر تکیہ کئے مقدموں سے کھیل رہی تھی۔ ایوان بالا کے انتخابات میں درمیانے درجے کی لہریں اٹھتے دیکھ کر‘ میاں صاحب نے ہلکی سی انگڑائی لی اور اپنے گروپ کے امیدواروں کے ساتھ ریہرسل ہی کر رہے تھے کہ بلوچ امیدوار اکھاڑے میں اتر کے ڈنڈ بیٹھکیں لگانے لگے۔ میاں صاحب نے مقدمات سے توجہ ہٹا کر جلدی میں‘ راجہ ظفر الحق کو امیدوار بنا دیا۔ راجہ صاحب نے جماہی لیتے ہوئے غنودگی بھری آواز میں جواب دیا ''میاں صاحب جو آپ چاہیں‘‘ اور آنکھیں بند کر لیں۔ آصف زرداری نے چیئرمین سے نظر ہٹا کر‘ سلیم مانڈوی والا کو ڈپٹی چیئرمین کا امیدوار بنا دیا۔ اس مقابلے کے نتائج ہی ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مقابلہ انگڑائیوں اور جماہیوں کے درمیان ہوا۔ زیادہ چستی زرداری صاحب نے دکھائی۔ غالباً ان کا خیال تھا کہ کامیابی انہی کو حاصل ہو گی۔ میاں صاحب کو جب انتخابی نتائج بتانے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا ''کون سے مقدمے کی بات کر رہے ہو؟‘‘
بتایا گیا کہ ''ہم مقدمے کی نہیں‘ سینیٹ کے الیکشن کی خبر دینے آئے ہیں‘‘۔
''مریم بی بی کو بتائو‘‘۔