متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے سہانے دن تو گزر گئے۔ اب پھر سے نہ متحدہ مجلس عمل‘ قومی اسمبلی میں چار پانچ درجن اراکین لا سکتی ہے اور نہ سابق صدر پرویز مشرف برسرِ اقتدار آئیں گے‘ جن کی مہربانیاں دیکھ کر‘ مولانا فضل الرحمن وزارتِ عظمیٰ کا مطالبہ کر د یں۔ غالباً وہ ان کی سیاسی زندگی کا واحد موقع تھا‘ جس میں مولانا صاحب‘ وزارتِ عظمیٰ کے لئے بِل یا کُھڈ نکالنے میں کامیاب ہو جاتے۔ مولانا کے لئے روشن امید پیدا ہو سکتی تھی لیکن وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا۔ ایک میاں نواز شریف تھے جو اپنے حامیوں اور دوستوں کو جی بھر کے فیض یاب کرتے تھے۔ اس بار یوں لگتا ہے کہ حضرت مولانا‘ پھر سے وزیر اعظم ہائوس میں اپنے لئے جگہ بنانے کا کوئی طریقہ نکال لیں گے‘ مگر افسوس کہ میاں صاحب کو اپنے لئے کرسی ملنے کی امید کم ہی رہ گئی ہے۔ وہ صوبائی وزارت اعلیٰ کی کرسی پر اپنی بھاری بھرکم شخصیت کو جلوہ افروز کر سکتے تھے۔کیا کریں؟ انہوں نے خود ہی اپنے آپ کو شکاریوں کے آگے کر دیا۔ میاں صاحب نے حالات کا جائزہ لے کر سوچا کہ سارا دھن جاتا دیکھئے‘ تو آدھا دیجئے بانٹ۔ اس بار قاضی حسین احمد صاحب زندہ ہوتے تو ایم ایم اے کی طرف سے‘ یقینا وہ خود وزارت عظمیٰ کے امیدوار بن جاتے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے بزرگ رہنما ''دعوت حلوہ‘‘ میں جا دھمکتے اور سربراہی کا منصب لے کر تشریف فرما ہو جاتے۔ آج کل جیسے حالات ہیں‘ اگر قاضی حسین احمد صاحب بقید حیات ہوتے اور حالات نے بھی میاں نواز شریف سے منہ پھیر لیا ہو تو قاضی صاحب مرحوم کے لئے یہ بہترین موقع ہوتا کہ کوئی عالم دین وزارت عظمیٰ کی نشست پر براجمان ہو سکتا تھا۔
مولانا فضل الرحمن کے لئے بہت دن پہلے‘ امید کا راستہ بند ہو گیا تھا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ ان کی امید کا واحد راستہ میاں نواز شریف تھے۔ میاں صاحب نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں‘ کرسیٔ صدارت کے لئے جو موزوں ''ماڈل‘‘ سوچ رکھا ہو گا‘ اس پر 75,70 سال سے زیادہ عمرِ دراز کا کوئی پسندیدہ بزرگ دستیاب ہوتا تو وہ حضرت مولانا فضل الرحمن ہی ہوتے۔ اسداللہ غالب سے فون پر بات ہوئی تو انہوں نے حیرت انگیز اور قابل عمل تجویز دے ڈالی‘ جسے سن کر (ن) لیگ والے اچھل پڑتے۔ تجویز یہ تھی کہ انتخابات کے لئے جو نگران حکومت بنتی‘ اس کے سربراہ انتخابات منعقد کرا دیتے اور فوراً ہی کوئی بہانہ بنا کر اعلان کر دیتے کہ ملک میں ہنگامی حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ (جو کہ عموماً رہتے ہیں) حالات معمول پر لانے کے لئے مزید چھ ماہ کا عرصہ درکار ہو گا۔ اس دوران وہ منتخب اسمبلیوں کے اجلاس طلب نہ کرتے۔ چھ ماہ کے لئے ایک عارضی حکومت قائم کر لیتے‘ جس میں تمام بڑی بڑی جماعتوں کے سربراہوں کو کابینہ میں شامل کر لیا جاتا‘ مگر کابینہ کا اجلاس بلانے میں تاخیر کرتے جاتے۔ دو تین مہینوں کے بعد ہی نو منتخب وفاقی اور صوبائی اراکین بے چین ہونے لگتے۔ نگران وزیر اعظم اپنے اقتدار کا عرصہ مزید چھ ماہ کے لئے بڑھا لیتے۔ اسمبلیوں میں جانے کے لئے منتخب اراکین‘ جلدی جلدی وزارتیں لینے کے لئے بے چین ہونے لگتے۔ نگران وزیر اعظم اپنی عارضی کابینہ کا ایک اجلاس بلا کر طے کرتے کہ منتخب اراکین کے لئے ایوا نوں کا راستہ کھول دیا
جائے۔ ان ایوانوں میں وفاقی وزارتیں بنا لی جاتیں۔ نگران وزیر اعظم نئی منتخب وزارتوں کی آئینی حیثیت تسلیم کر لیتے۔ نئی منتخب وزرا کی کابینہ‘ نگران وزیر اعظم سے ملاقات کر لیتی۔ جب سارا فارمولہ طے ہو جاتا تو ''نو منتخب‘‘ اسمبلیوں کے اجلاس بلا کر‘ نگران وزیر اعظم تمام اسمبلیوں سے اپنے حق میں قرارداد منظور کرا لیتے کہ نگران وزیر اعظم نے انتہائی پُرامن اور شفاف انتخابات منعقد کرائے ہیں اور اس کے ساتھ ہی نگران وزیراعظم سے استدعا کی جاتی کہ انہوں نے نگران وزیر اعظم کی حیثیت سے انتہائی ناسازگار حالات میں‘ پُرامن انتخابات منعقد کرائے۔ بطور نگران وزیراعظم انہوں نے ملک کا نظم و نسق خوش اسلوبی سے چلایا۔ انتخابات کے بعد نو منتخب اراکین اسمبلی اور نگران وزیر اعظم نے مل کر عوامی خواہشات کی تکمیل کی۔ تمام صوبائی اور وفاقی اراکین اسمبلی کی خواہش ہے کہ نگران وزیر اعظم اپنی شاندار کارکردگی کی روشنی میں‘ موجودہ انتظامی صورت حال کو‘ برقرار رکھنے کے لئے‘ اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اس لئے وہ نومنتخب اداروں سے اعتماد کا ووٹ لے کر ملک کو‘ مستحکم سیاسی استحکام مہیا کر دیں۔ اس طرح عوام کے منتخب نمائندے ملک میں غیر یقینی صورت حال ختم کر کے‘ جناب نگران وزیر اعظم سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ مزید تاخیر کئے بغیر‘ اسمبلیوں کے فوری اجلاس منعقد کریں۔ پہلے وہ نو منتخب اسمبلیوں کو مستقل قرار دیں اور پھر یہ اسمبلیاں‘ نگران وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ دیں تاکہ عوام کے مطالبات پورے کئے جا سکیں۔ یہ ایک ایسا فارمولہ ہے جس میں نہ صرف ملک انتشار سے بچ جائے گا بلکہ عوام کو ان کی منتخب حکومت بھی دستیاب ہو جائے گی۔ رہ گئے مولانا فضل الرحمن تو ان کا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ ایسی حکومت مذہبی رہنمائوں کو اپنے دامن میں سمو سکتی ہے۔