مفرور وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار نے‘ وزارت خزانہ کی موجودہ ٹیم‘ جس نے محض چند ماہ پہلے ذمہ داریاں سنبھالیں‘ پر ''پہلوانی گرز‘‘ برساتے ہوئے الزام لگایا کہ انہیں تو کرنسی کے معاملات کی سوجھ بوجھ ہی نہیں۔ ان کو سمجھ نہیں کہ معیشت کیا ہے؟ ڈار صاحب نے شدیدغصے کی حالت میں کہا کہ ''آپ نے ڈالر کی قدر بڑھا کر پورے ملک کی امپورٹ بڑھا دی‘‘۔ انہوں نے وزارتِ خزانہ کی موجودہ ٹیم کو چیلنج کیا کہ ''وہ خسارے کو روک کر دکھائے؟ سٹاک ایکسچینج کا نقصان 30 کھرب روپے تک جا پہنچا ہے۔ 180 ارب کا پیکیج نواز شریف نے دیا جبکہ سات ارب کا پیکیج میں نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو دیا۔ وہ اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے‘‘۔ جب نواز شریف وزیراعظم بنے‘ ڈار صاحب نے ہمارے قومی خزانے کو دیمک کی طرح چاٹ لیا۔ حالت یہ ہے کہ ڈار صاحب اور ان کے بعد جتنے لوگ بھی وزارت خزانہ پر ''نافذ‘‘ ہوئے‘ ان میں سے کسی نے بھی پاکستان پر رحم نہیں کیا۔ ایک ڈالر پاکستان کے دو اڑھائی روپے کے برابر ہوتا تھا۔ ساڑھے چار کا ڈالر میں نے خود خریدا ہے۔ پاکستان پر جو عذاب مسلط ہوا‘ اس کے ذمہ دار جناب اسحاق ڈار ہیں۔ اگر ان کے اپنے بیان کو سامنے رکھیں تو آپ آسانی سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ ڈار صاحب ذاتی مفادات کو ہمیشہ فوقیت دیتے آئے ہیں۔ چند روز پہلے ہی ایک چھوٹا سا واقعہ سامنے آیا‘ جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ڈار صاحب قومی خزانے کے معاملات سے زیادہ ترجیح ذاتی مفادات کو دیتے ہیں۔
گزشتہ شب ڈار صاحب نے شدید بیماری کی حالت میں‘ انتہائی صحت مند آواز کے ساتھ ایک انٹرویو دیا۔ ایسی گھن گرج کے ساتھ امیر ترین ملک کا وزیر خزانہ بھی‘ اتنے اعتماد سے بات نہیں کرتا ہو گا‘ جس طرح ہمارے ڈار صاحب کرتے ہیں۔ وہ اپنی تباہ کن پالیسیوں کا دفاع یوں کرتے ہیں جیسے پاکستان میں ایک ڈالر‘ پانچ روپے کی سطح پر آ گیا ہو۔ ہماری وزراتِ خزانہ کو چلانے والے یہی صاحب تھے۔ جب بھی نواز شریف وزیراعظم بنتے‘ وزارت خزانہ کے امور انہی کے سپرد کئے جاتے۔ ضروری نہیں کہ انہیں ہر بار وزارتِ خزانہ ملی ہو‘ لیکن ایک بات مسلمہ ہے کہ نواز شریف جب بھی اپنے ملک کے وزیراعظم بنے‘ خزانہ ڈار صاحب کے تسلط میں ہی گیا۔ ان کی خصلت کو دیکھنا ہو تو ان کے ایک تازہ انٹرویو کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ موصوف نے بطورِ وزیر خزانہ لاہور میں امرا کے ایک علاقے میں‘ اپنی ان گنت کوٹھیوں میںسے ایک کوٹھی بنائی۔ وزارت کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے اپنے گھر کے سامنے ایک خوبصورت پارک سے‘ کوئی ڈیڑھ کنال کے قریب رقبہ نکال کر‘ سڑک بنا ڈالی۔ ایک کنال چھ مرلے زمین نکالنے کے بعد‘ پارک کا حسن اجڑ کے رہ گیا۔ آج بھی اگر اہل محلہ اس پارک میں چہل قدمی کے لئے جاتے ہیں تو وہاں اتنی گندگی پڑی ہوتی ہے‘ جتنی کہ کراچی کی خوب صورت سڑکوں پر۔ اس گرائونڈ کی خوب صورتی کا حلیہ‘ جس طرح ڈار صاحب نے قومی خزانے کی طرح بگاڑا ہے‘ وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
ملک کے اربوں کھربوں روپے کے خزانے کو‘ نیست و نابود کر کے جو حلیہ بگاڑا گیا‘ وہ صرف ڈار صاحب ہی کی مہارت ہے۔ اگر قارئین کو یاد ہو تو میں نے ڈار صاحب کو وزارتِ خزانہ ملتے ہی ''دنیا‘‘ میں لکھا تھا ''ڈار صاحب اب اتنی مہنگائی لائیں گے کہ بچے گھر میں چھپ کر آئس کریم کھا سکیں تو کھا لیں‘ اگرکسی گلی میں بچہ آئس کریم کھاتے ہوئے نظر آیا تو ڈار چلتی گاڑی روک کر‘ بچے کے ہاتھ سے آئس کریم چھین لیں گے‘‘۔ ہو سکے تو آپ جائزہ لے کر دیکھ لیجئے کہ پاکستان کی وزارتِ خزانہ پر‘ ڈار صاحب کے مسلط ہوتے ہی‘ نچلے متوسط طبقے کے بچے‘ گھروں میں چھپ کر آئس کریم کھا سکیں تو کھا لیں‘ ورنہ وہ گھر کی کھڑکی میں کھڑے ہو کر بھی آئس کریم کھاتے دکھائی دے گئے تو ٹی وی پر ڈار صاحب کی خبر آتے ہی وہ بھاگ کر‘ باتھ روم یا گھر کے سامان رکھنے والے کمرے میں چھپ جاتے۔ گھر کا کوئی بڑا انہیں باہر نکلنے کو کہتا تو بچے کانپتی آواز میں جواب دیتے '' ہمیں ڈر لگتا ہے‘‘۔ اور انہیں بتایا جاتا کہ ''وہ تو ولایت میں بیٹھے ہیں۔ اتنی جلدی آکر تمہاری آئس کریم نہیں چھین سکتے‘‘۔
ڈار صاحب کی اتھارٹی اور طاقت کا اندازہ لگانا ہو تو چند جملے پیش کرتا ہوں۔ سرکاری افسروں کے بارے میں فرماتے ہیں ''یہ لوگ جھوٹ بولنے میں کیوں اتنے تیز ہیں؟ اپنی جان چھڑانے کے لئے جھوٹ بولا۔ ڈی جی ایل ڈی اے کو چاہئے تھا کہ پرانا نقشہ لے کر جاتے اور چیف جسٹس کو اصل صورت حال سے آگاہ کرتے‘‘۔ مزید فرمایا ''60 کنال کے پارک میں صرف ایک کنال چھ مرلے کی بات ہو رہی تھی‘‘۔ جس حقارت سے انہوں نے محلے کے پھیپھڑے میں سے ایک کنال چھ مرلے نکالنے کا ذکر کیا ہے‘ زمین کے اتنے بڑے ٹکڑے میں کوئی خوش حال شہری اپنی ''کوٹھی‘‘ بنوا سکتا ہے۔آپ نے مزید فرمایا ''یہ کہنا بھی غلط ہے کہ میرے کہنے پر پارک ختم کر دیا گیا جبکہ پارک کبھی ختم نہیں ہوا۔ پورے پارک میں سے ایک کنال چھ مرلے کی بات ہو رہی تھی۔ ایل ڈی اے نے سڑک کشادہ کی ہے‘‘۔ ( بے نیازی ملاحظہ ہو) ''یہ بھی عوامی مفاد میں ہے‘‘ (بنگلے کی توسیع صرف ڈار صاحب کے گھر کی ہوئی) ''لوگ مجھ سے گلہ کرتے رہے لیکن میں نے ان کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہونے دیا‘‘۔ ڈار صاحب نے فخریہ انداز میں بتایا کہ انہوں نے ''اپنے علاقے میں ترقیاتی فنڈز میں سے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا‘‘۔ (موصوف نے ا پنی فراخ دلی کا فخر سے ڈھنڈورا پیٹا) جس طرح ڈارصاحب نے وزارتِ خزانہ چلانے والوں کو دھمکی دی ہے وہ بھی توجہ سے پڑھنے کے لائق ہے۔ آپ نے فرمایا ''دیکھتا ہوں؟ ایکسپورٹ کس طرح بڑھتی ہے؟‘‘ یہ دھمکی انہوں نے اپنے ہی ملک کی وزارتِ خزانہ کو دی ہے۔ ڈار صاحب ہمارے کتنے ہمدرد ہیں؟