کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں حکومت کی‘ کوڑے سے نبرد آزما ہونے کی رفتار کافی بڑھ گئی ہے۔ چین‘ امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے‘ طے شدہ معاہدوں کے تحت کوڑا درآمد کر رہا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ چین نے خود بھی کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے تجربات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یہ فکر ہے کہ اگر چین نے ان ملکوں سے کوڑا درآمد کرنے کا سلسلہ معطل کر دیا تو وہ اپنے کوڑے کا کیا کریں گے؟ ایک دلچسپ رپورٹ ملاحظہ فرمائیے۔
''گزشتہ سال چین نے (جو دنیا میں کوڑ ا درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے) اعلان کیا کہ وہ اب دوسرے ممالک کا کوڑا نہیں منگوا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اب اپنے ملک میں پائی جانے والی آلودگی کے مسائل پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے۔ پالیسی میں یہ غیر معمولی تبدیلی یکم جنوری سے نافذ العمل ہو چکی ہے۔ ''نیو یارک ٹائمز‘‘ کی رپورٹ کے مطابق‘ چین نے امریکہ‘ کینیڈا‘ آئرلینڈ‘ جرمنی اور بہت سے دیگر یورپی ممالک کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ وہ حیران ہیں کہ اب وہ اپنے ملکوں میںجمع ہونے والے کوڑے کے ڈھیروں کا کیا کریں؟ اس صورت حال کے بعد‘ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو اپنے ہاں پیدا ہونے والے کوڑے کا بندوبست کرنا چاہئے تھا۔ اس کوبہتر ین موقع جاننے کے بجائے‘ الٹا بیجنگ سے ہی پابندی معطل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ''رائٹر‘‘ کی رپورٹ کے مطابق‘ امریکہ کی عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹو او) نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چین کی اس پابندی کی وجہ سے‘ سکریپ میٹریل کی عالمی سپلائی متاثر ہو سکتی ہے۔ جنیوا میں میٹنگ کے دوران مذکورہ نمائندے کا کہنا تھا ''ہم چین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس پابندی کو اٹھا لے اور ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے سکریپ میٹریل کی ری سائیکلنگ کے نئے طریقے دریافت کرے‘‘۔ امریکی ماہر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ''چین کی ری سائیکلنگ کے لیے استعمال ہونے والے کوڑے کی درآمد پر پابندی کی وجہ سے‘ ایسے میٹریل کا عالمی بحران پیدا ہو جائے گا۔ اس کی وجہ سے ڈسپوز ایبل اشیا کے استعمال کی حوصلہ شکنی ہوگی‘‘۔
دوسری طرف صدر ڈونلڈ ٹرمپ چین سے منگوائی جانے والی اشیا پر 60 بلین ڈالر تک محصول نافذ کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ امریکیوں کو فکر لاحق ہے کہ کہیں چین کوڑا درآمد کرنے کاسلسلہ ہی ختم نہ کر دے۔ بعض امریکیوں کو یہ بھی خدشہ ہے کہ چین‘ امریکی مطالبے کو خاطر میں نہیں لائے گا۔ صدر ٹرمپ نے چین کو ''دشمن معیشت‘‘ بھی قرار دے رکھا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ سولر پینل‘ سٹیل اور المونیم کی درآمدات پر بہت سے محصولات نافذ کئے جائیں گے۔ چین کے ریگولیشن کے محکمے نے گزشتہ جولائی میں اعلان کیا تھا کہ وہ چوبیس اقسام کی استعمال شدہ اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کرکے‘ ماحولیاتی آلودگی میں کمی لائیں گے۔ چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان‘ شین ہائو(Xinhua) کے مطابق‘ چین اپنی پالیسی کا دفاع کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ مس ہائو کا کہنا ہے ''یہ تشویش نہ تو معقول ہے کہ اور نہ ہی اس کا کوئی آئینی جواز موجود ہے۔ امریکہ‘ چین سے عالمی تجارتی تنظیم کی ڈیوٹی کی خلاف ورزی کا الزام لگاکر منافقت کا مظاہرہ کر رہا ہے‘‘۔ مس ہائو کے مطابق اگر امریکہ یہ سوچتا ہے کہ وہ درآمدات کو محدود اور ہائی ٹیک اشیا کی برآمد پر پابندی لگانے کا جواز رکھتا ہے تو چین کی طرف سے کوڑے اور استعمال شدہ میٹریل کی درآمد بھی کسی طور غیر قانونی نہیں۔ مزید کہنا تھا ''ویسٹ میٹریل کی درآمد پر پابندی لگاناچین کا حق ہے۔ وہ اس کے لیے نئے تصورات کو عملی شکل دینے جا رہا ہے۔ اس کے لیے سب سے اہم ترجیح ماحولیات اور اپنے عوام کی صحت میں بہتری لانا ہے۔ باسل معاہدہ ملکوں کو ایسے میٹریل کی درآمد پر پابندی لگانے کی اجازت دیتا ہے جو اس کے عوام کی صحت کے لیے مضر ہوں ۔ ہمیں امید ہے کہ امریکہ خود نقصان دہ میٹریل کو ماحول میں پھینکنے کے عمل کو محدود کرے گا۔ اس کے لیے بھی عالمی معاہدے اپنی جگہ پر موجود ہیں‘‘۔
امریکہ ہر سال 13.2 ملین ٹن ردی کاغذ اور 1.42 ملین ٹن پلاسٹک سکریپ چین بھیجتا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں پلاسٹک سے پھیلنے والی آلودگی سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کئی ریاستوں نے پلاسٹک کے شاپنگ بیگز‘ بوتلوں اور دیگر اشیا پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ یہ اشیا زمین اور سمندر‘ دونوں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ ان کی وجہ سے آبی گزرگاہوں میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ دیگر ترقی پذیر ممالک بھی یہ غیر ملکی سکریپ خریدتے ہیں۔ ان میں ملائیشیا اور ویت نام قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن وہ اتنی بھاری مقدار میں یہ میٹریل نہیں خرید سکتے جتنا چین۔
ماحولیاتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ویسٹ برآمد کرنے والے ممالک کو اپنے ہاں مقامی طور پر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ اس کے لیے ویسٹ مینجمنٹ اور ری سائیکلنگ کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا ہوگا۔ ایسی ہی ایک تنظیم گرین پیس‘ صنعتکاروں پر زور دے رہی ہے کہ وہ اپنی تیار کردہ اشیا کو تلف کرنے کی ذمہ داریاں خود اٹھائیں۔ اُنہیں اس کے لیے سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔ گرین پیس ایشیا کے نمائندے Liu Hua نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ''یہ ریگولیشنز دنیا کوہلا کر رکھ دیں گی۔ بہت سے ممالک ''آنکھ اوجھل‘ پہاڑ اوجھل‘‘ کی پالیسی اپنائیں گے۔ لیکن یہ بات نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ دنیا لامتناہی کوڑا پیدا نہیں کر سکتی۔ اسے ٹھکانے لگانے کا بندوبست کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ اس کی برآمد کے لیے چین یا دیگر ممالک کی طرف دیکھنے کے بجائے‘ سرکاری اور نجی شعبے کو ایسا میٹریل تیار کرنے کی طرف توجہ دینا ہوگی جو بہت کم ویسٹ پیدا کرتا ہو‘‘۔
ہمارے شہر کراچی میں کوڑے کے اتنے ڈھیر پڑے ہیں‘ جن کی وجہ سے اہل کراچی بے حد پریشان اور فکر مند ہیں۔ پسماندگی کی حالت یہ ہے کہ ہم اپنے شہروں میں کوڑے کی پیداوارمیں روز بروز اضافے سے شدید تکلیف میں مبتلا ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ چین کی دوستی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ پاک چین معاہدوں کے تحت‘ نئی کوڑا ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا کر‘ ہم ایک نئی صنعتی پیداوار شروع کریں‘ جس سے ہمارے بے شمار مسائل حل ہو سکتے ہیں۔