زیر نظر کالم‘ عالمی امور کے ایک ماہر کے تجزیے سے ماخوذ ہے۔
''ابھی وزیر خارجہ‘ ریکس ٹلرسن پر وائٹ ہائو س کا دروازہ بند ہوا ہی تھا جب گھنی مونچھوں والے ہاک‘ صدر ٹرمپ کی کابینہ میں شامل ہوئے۔ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر‘ ایچ آر میک ماسٹر کی جگہ اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سابق سفیر‘جان بولٹن امورِ خارجہ میں سیکرٹری آف سٹیٹ‘ مائیک پومپو کی معاونت کریں گے۔ شخصیت کی جانچ کرتے ہوئے پالیسی کا اندازہ لگانا ادھوری کوشش ہوتی ہے لیکن وائٹ ہائوس میں عملیت پسندی کی چلنے والی ہوائیں اور جنگ کے رسیا افراد کی بڑھتی ہوئی موجودگی آنے والے حالات و واقعات کا پتا دیتی ہیں۔ قیاس کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ وائٹ ہائوس کا انتہائی تنائو زدہ معاملات پر تحمل کا لیول بہت کم ہو جائے گا۔ جب ہم جانچ کرنے کے لیے کوئی لکیر کھینچتے ہیں تو ہمیں اہم سیاسی فیصلوں کے پیچھے کارفرما شخصیات کو نظرانداز کرنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ تجارت کے مسئلے پر صدر کی دھمکیاں اُن کے عملی اقدامات سے کہیں زیادہ بدتر تھیں۔ وائٹ ہائوس نے کچھ اتحادیوں کو میٹل ٹیرف پر رعایت دی۔ جنوبی کوریا کے ساتھ ایک تجارتی معاہدے پر لچک دکھائی۔ چین کے ساتھ بھاری بھرکم ٹیرف کا مارجن کم کیا تاکہ تزویراتی امور پر مزید توجہ دے سکے۔ اس کی وجہ سے امریکی صارف کی جیب پر بوجھ پڑے گا۔ اگرچہ تنائو کا لیول بہت بلند ہے لیکن عالمی تجارتی جنگ کسی دھماکہ خیز مقام تک نہیں پہنچی۔ تجارت کو ایک طرف رکھتے ہوئے‘ امریکہ کی خارجہ پالیسی ایک خطرناک موڑ مڑ رہی ہے ۔ پومپو اور بولٹن جیسے جنگی عقابوں کو‘ اوول آفس میں اہم عہدے ملنے کے بعد‘ صدر کا عالمی ایجنڈا خطرناک رخ اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ بے رحم اور مشینی انداز میں غیر جذباتی فعالیت پر یقین رکھنے والے یہ افراد‘ واشنگٹن کے پالیسی ساز دفاتر کے تمام دائو پیچ سے واقف ہیں۔
بولٹن سخت گیر پالیسی ترجیحات اپنا سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی طرح بولٹن بھی کئی ایک ریاستی اداروں کی سفارت کاری میں مداخلت کو ناپسند کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے غیر ضروری مشاورت صرف وقت ضائع کرتی ہے‘ اس سے حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ جان بولٹن کی پالیسی کا سب سے نمایاں پہلو دیگر ممالک میں‘ حکومتوں کی تبدیلی کی امریکی کوششیں ہیں‘ جن کی وجہ سے آج کی دنیا ایک بحران سے دوچار ہے۔ بولٹن کو یقین ہے کہ ایٹمی طاقت بننے کی خواہشمند ریاستوں کو طاقت سے روکنا ہی مناسب اقدام ہوگا‘ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ پندرہ سالہ خانہ جنگی‘ جہادی تحریک کے فروغ اور خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر کے باوجود بولٹن کا خیال ہے کہ عراق پر امریکی حملے کا جواز موجود تھا۔ وہ جواز صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی مبینہ موجودگی تھی۔ عراق تباہ کر دیا گیا لیکن وہ ہتھیار نہ مل سکے۔ بولٹن ہنوز اپنے جوازسے ٹس سے مس نہیں ہوئے ہیں۔ اُ نہوں نے شمالی کوریا کے خلاف کئی ایک فوجی اقدامات تجویز کیے۔ ان میںسے ایک بیجنگ کی مدد سے‘ شمالی کوریا میں حکومت کو تبدیل کرنا تھا۔ بولٹن کا خیال ہے کہ امریکہ‘ ایران کے ساتھ کیا گیا جوہری معاہدہ پھاڑ پھینکے۔ اس کے بعد ایران کے خلاف جہادی قوتوں کی پشت پناہی کرنے اور ایران میں انقلاب برپا کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بولٹن نے ابھی تک مشرق وسطیٰ کی صورت حال اور داعش جیسے گروہوںسے یورپ اور باقی دنیا کو لاحق خطرے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ غیر ذمہ دار ریاستوں کو جوہری طاقت بننے سے روکنا ضروری ہے لیکن شمالی کوریا جیسی ریاستیں جو یہ طاقت حاصل کر چکی ہیں‘ ان کا کوئی آسان اور سیدھا سادہ حل موجود نہیں۔ فوجی حل تو کسی صورت دستیاب نہیں۔ یہاں خطے میں چین اور روس کی موجودگی‘ امریکہ کے ہاتھ سے بہت سے آپشنز چھین لیتی ہے۔ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ آن‘ بھی ان تصورات سے آگاہ ہیں۔ اُنہوں نے بہت منظم طریقے سے بیجنگ یا کسی اور طاقت کی طرف سے‘ شمالی کوریا میں اقتدار کی تبدیلی کی گنجائش ختم کر دی ہے۔ جان بولٹن کے نزدیک شمالی کوریا اور ایران کی طر ف سے اٹھنے والے جوہری مسائل‘ بنیادی طور پر ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ وہ ان دونوں ریاستوں کے خلاف فوجی کارروائی کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ان ریاستوںکی وجہ سے‘ دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلائو ناگزیر دکھائی دے‘ تو ان کے خلاف فوری اور بھرپور کارروائی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ بولٹن کے خیال میں اگر ایران کے ساتھ کیا گیا جوہری معاہدہ‘ جس میں جرمنی اور دیگر ممالک شریک ہیں‘ اپنی جگہ پر موجود رہے تو بھی امریکہ کو‘ یکطرفہ طور پر اس سے نکل جانا چاہیے۔ وہ چارلس ڈیگال کے مشہور جملے ''ریاستوں کے معاہدے لڑکیوں اور پھولوں کی طرح ہوتے ہیں‘ جب تک تازہ رہیں‘ کام دیتے ہیں۔ اس کے بعد...‘‘ پر یقین رکھتے ہیں۔
اس وقت امریکہ‘ ایران سے متعلق جارحانہ پالیسی آگے بڑھا رہا ہے۔ آج کی صورتحال کا 2012 ء سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت بھی امریکہ‘ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے آپشنز پر غور کر رہا تھا۔ اسے ایسا کرنے کے لیے اسرائیل اکسا رہا تھا۔ اس وقت بھی امریکہ اور اسرائیل مل کر‘ جوہری ڈیل ختم کرنے کے مضمرات کا جائزہ لینے میں مصروف تھے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران خلیج کی صورت حال بہت تبدیل ہو چکی ہے۔ کچھ اہم خلیجی ریاستیں‘ جیسے سعودی عرب اور یو اے ای‘ جوہری معاہدے کی ناقد ہیں۔ اس وقت وہ بھی تزویراتی مسائل سے نمٹنے کے لیے‘ ایک فوج (جو بڑی حد تک کاغذوں میں موجود ہے) تیار کر چکے ہیں۔ اس کا غیر علانیہ ہدف خطے میں ایران کا بڑھتا ہوا اثر روکنا ہے۔ موجودہ پیش رفت قدرے چونکا دینے والی ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان خفیہ تعلقات اب منظر عام پر آتے جا رہے ہیں۔ اس طرح یہ دونوں ریاستیں مل کر ایران کے خلاف کھڑی ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسرائیل کو بخوبی علم ہے کہ ایران پر فوجی دبائو بڑھانے کی صورت میں‘ حزب اللہ فعال ہو جائے گی۔ اس سے شرق اوسط کا امن مزید خراب ہو گا۔ اس کے علاوہ روس کی خطے میں موجودگی اور ایران اور شام کے ساتھ اس کے فوجی تعاون کی وجہ سے امریکہ‘ اسرائیل اور دیگر عرب ریاستوں کے لیے کھل کر ایران یا حز ب اللہ کے خلاف کارروائی کرنا آسان نہیں ہو گا۔
امریکہ اب فوجی کارروائی کرنے جا رہا ہے۔ دوسری طرف اس کا تجارتی خسارہ کئی ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ اسے تزویراتی اور معاشی محاذ پر چین اور روس کا سامنا ہے۔ ایران اور شمالی کوریا جیسے مسائل بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچی۔ سب سے اہم سوال‘ کیا یہ مسائل امریکہ کو محتاط پالیسی سازی پر مجبور کرتے ہیں یا کھل کر جارحانہ اقدامات کرنے کی شہ دیتے ہیں؟ بولٹن کی تعیناتی کسی حد تک اس سوال کا جواب دیتی ہے‘‘۔