دس سا ل پہلے میں شمالی کوریا گیا تھا۔ وہاں کی سماجی حالت دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ ملک اپنے عوام کو کبھی آسودہ زندگی نہیں دے پائے گا۔ ایٹمی طاقت بننے کا خواب اس کے سابق صدر نے دیکھا اور آج تک اس کے تمام وسائل ایٹمی اسلحہ کی ترقی پر صرف ہو رہے ہیں۔ ہر بار نئی خبر آتی ہے کہ شمالی کوریا میں جدید سے جدید تر ایٹمی ہتھیار بنائے جا رہے ہیں۔ شمالی کوریا معاشی اور سماجی ترقی کے میدان میں بہت پیچھے رہ گیا جبکہ جنوبی کوریا نہ صرف عوام کو اچھی زندگی دینے کے قابل ہے بلکہ شمالی کوریا کے مقابلے میں‘ اسے دفاع کیلئے امریکہ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ راجر بیکر امریکہ کے ماہر سفارتی تجزیہ نگار ہیں۔ انہی کا ایک تازہ مضمون پیش کر رہا ہوں۔
''کہاوت ہے کہ چیزیں جتنی تبدیل ہوتی ہیں‘ وہ اتنی ہی یکساں بھی رہتی ہیں لیکن جزیرہ نما کوریا میں اس کے بالکل الٹ صورتحال مشاہدے میں آ رہی ہے۔ وہاں حالات جتنے جمود کا شکار نظر آتے ہیں‘ اتنے ہی تبدیل بھی ہو رہے ہیں۔ چھ ماہ پہلے شمالی کوریا کے بارے میں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ اگر امریکہ‘ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کو برباد کرنے کیلئے یکطرفہ فوجی ایکشن کا فیصلہ کر لے تو ایسی کسی صورتحال سے بچا جا سکتا ہے یا نہیں؟ آج بحث یہ ہے کہ پیانگ یانگ کی حالیہ ڈپلومیٹک پیش رفت نے‘ اس مسئلے کے غیر فوجی حل کی امید پیدا کر دی ہے۔ میںگزشتہ 20 برسوں سے مشرقی ایشیا کے اس خطے کا مطالعہ کر رہا ہوں‘ جہاں دونوں کوریا واقع ہیں۔ اپنے مشاہدے کی بنیاد پر پُرامید ہو ں کہ بالآخر ایک حقیقی تبدیلی اس خطے کا مقدر بدل دے گی لیکن تاریخی حقائق کا جائزہ لوں تو رجعت گھیر لیتی ہے۔ حیران کن تاخیر‘ غیر متوقع فون کالیں‘ مزید ہدایات کیلئے دارالحکومت کی طرف رجوع‘ فریق مخالف کو بعض فیصلوں میں شامل کرنے کی کوشش کرنا اور کسی قرارداد کو مؤخر یا ملتوی کرانے کیلئے ڈپلومیٹک جزئیات میں پڑنا‘ یہ شمالی کوریا کا مذاکرات کا سٹائل ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ کے مابین مجوزہ ملاقات میںسب ہتھکنڈے ناکام ہو جائیں گے‘ کیونکہ یہ مذاکرات اپنے اندر پیچیدہ مسائل کے حل کے زیادہ امکانات لئے ہوئے ہوں گے۔ اسی کے اندر ایک اور آئیڈیا چھپا ہوا ہے کہ اگر دونوں رہنما بات چیت کے ذریعے تنازعات کا کوئی قابلِ عمل حل نہ نکال سکے تو پھر سفارتی ذرائع سے‘ ان مسائل کے حل کے امکانات بالکل ختم ہو جائیں گے اور فوجی طاقت کے استعمال کے خدشات‘ پھر ابھر کر سامنے آ جائیں گے۔ کورین جزیرہ نما کے تنازعہ کے ان گنت حصے اور جہتیں ہیں‘ چنانچہ معاملات کو سلجھانے کیلئے دو کور ایشوز (Core Issues) پر توجہ مرکوز کرنا سود مند ہو سکتا ہے۔ پہلا‘ اس بات کا تعین کرنا کہ شمالی کوریا مستقبل قریب ہی نہیں‘ مستقبل بعید میں کیا چاہتا ہے؟ دوسرا‘ اس امر کا اندازہ لگایا جائے کہ اگر موجودہ صورتحال تبدیل ہو جائے‘ یا کر دی جائے تو اس کے نتائج ماضی میں ہونے والے مذاکرات کے نتائج سے مختلف ہوں گے یا نہیں؟ ملاقات اور مذاکرات کی اس کوشش میں تمام مسائل کا حل تلاش کرنا ناممکن ہو گا۔ شمالی کوریا اب بھی نو آبادیاتی نظام کے خلاف ہے۔ یہ اپنی تاریخ کے آغاز میں غیر وابستہ تحریک‘ آزادی کی تحریکوں اور سامراجیت کے خلاف بغاوتوں کا طاقتور حمایتی رہا ہے۔ چین‘ امریکہ‘ روس اور جاپان سے خود کو بچائے رکھنا اس کے تزویراتی نظریات کا اہم جزو رہا ہے۔ شمالی کوریا میں حکمران کوئی بھی ہو‘ ہر حکومت اس زمانے کو مسلسل یاد رکھتی ہے‘ جب جاپان نے کوریا پر قبضہ کر لیا تھا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ جزیرہ نما دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔ کوریا 1945ء میں دو حصوں میں تقسیم ہوا ۔ تب سے اب تک شمالی کوریا کا ایک ہی تزویراتی ہدف رہا ہے کہ پیانگ یانگ کی سربراہی میں کوریا کو دوبارہ متحد کیا جائے۔ یہ ہدف اب بھی برقرار ہے اگرچہ شمالی کوریا کی لیڈرشپ اب پورے جزیرہ نما کا کنٹرول حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھتی۔
حالیہ برسوں میں دونوں کوریا کو متحد کرنے کی ضرورت میں شدت پیدا ہوئی۔ امریکہ کے مقابلے میں چین کے ابھر کر سامنے آنے کی وجہ سے‘ طاقت کا توازن مشرقی ایشیا میں منتقل ہو گیا ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے ردعمل میں‘ جاپان نے اپنی فوج کو تیزی سے نارملائز کیا ہے اور ملک کو دو دہائیوں کی معاشی بدحالی سے نکالنے کے لیے کام ہو رہا ہے۔ جبکہ ان کے درمیان میں واقع جزیرہ نما کوریا ہے‘ جو 16ویں صدی سے دونوں (چین اور جاپان) کے درمیان‘ ایک پُل کا کام کرتا رہا ہے اور میدانِ جنگ کا بھی۔ تقسیم شدہ کوریا دونوںملکوںکے مابین جاری رہنے والے اس مقابلے بازی میں بے حد زد پذیر ہے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے قابل بھی نہیں؛ تاہم متحدہ کوریا ایسا کر سکتا ہے۔ متحدہ کوریا اتنا طاقتور ضرور ہو گا کہ ان دونوں کے درمیان سینڈوچ نہ بنا رہے۔
اس مقصد کے حصول کیلئے شمالی کوریا نے متعدد مختلف نوعیت کی حکمت عملیاں اختیار کیں۔ ان میں سب سے واضح کورین جنگ ہے۔ جنگ کے بعد کے زمانے میں شمالی کوریا نے دبائو برقرار رکھنے اور معاشی ترقی کا طریقہ آزمانے کی کوشش کی تاکہ جنوبی کوریا کو اپنی ترقی سے متاثر کر کے‘ امریکہ سے دور کیا جائے اور اس طرح اتحاد کا راستہ ہموار ہو جائے۔ اس کی ترقی میں چین اور سوویت یونین‘ دونوں نے کردار ادا کیا۔ دوسری جانب جنوبی کوریا آمریت کے تحت معاشی مسائل کا شکار رہا؛ تاہم 1970ء کی دہائی میں حالات اس کے بالکل الٹ ہو گئے۔ سیول نے صنعتی لحاظ سے ترقی کرنا شروع کر دی اور شمالی کوریا کی غیر ملکی اقتصادی سپورٹ ختم ہو گئی۔ 1980ء کی دہائی کے اواخر اور 1990 ء کی دہائی کے اوائل میں‘ صورتحال نے ایک بار پھر پلٹا کھایا‘ اور دونوں کوریائی ممالک نے ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش کی۔ دونوں میں مذاکرات کے کئی دور ہوئے لیکن جب حالات میں بہتری کے آثار نمودار ہوئے تو شمالی کوریا نے ایک نئی حکمت عملی اختیار کر لی۔ اپنے بالکل تازہ شروع کئے گئے ایٹمی پروگرام پر عمل درآمد کو تیز کر دیا‘ جس کے نتیجے میں 1993-94 ء میں ایک نیوکلیئر بحران نے جنم لیا‘ جس پر قابو پانے کے لئے اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے طاقت کے استعمال کی حکمت عملی آزمانے کا قصد کیا تھا؛ تاہم شمالی کوریا نے امریکہ اور جنوبی کوریا کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے‘ امریکہ اور جنوبی کوریا سے ڈیل کرکے کچھ مالی اور سفارتی مفاد حاصل کر لئے۔ اس کے باوجود شمالی کوریا اپنی ایٹمی طاقت بڑھاتا رہا اور امریکہ کو چیلنج بھی کرتا رہا۔ اسی وجہ سے جنوری 2002ء میں امریکی صدر‘ جارج ڈبلیو بش نے کچھ دوسرے ملکوں کے ساتھ شمالی کوریا کو بھی ''بُرائی کا محور‘‘ ملک قرار دے دیا‘ جس کے جواب میں شمالی کوریا نے قلیل مدتی مفادات حاصل کرنے کیلئے چھیڑ خانیوں کا معاملہ تیز کر دیا۔ دبائو اور تنائو کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ 17 دسمبر 2011ء کو شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ال‘ کی وفات کے بعد اقتدار کم جونگ ان‘ کے ہاتھوں میں آنے کے بعد بھی معاملات اسی طرح تنائو کا شکار رہے۔
آج شمالی کوریا سفارتی کامیابیوں کے حصول کیلئے خود کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شمالی کوریا کے سربراہ کے چین میں مذاکرات‘ جنوبی کوریا میں مجوزہ کانفرنس‘ امریکہ کے ساتھ بات چیت کا نیا ممکنہ سلسلہ‘ اسی بدلی ہوئی پالیسی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ رپورٹ بھی ملی ہے کہ شمالی کوریا کی جاپان اور روس کے ساتھ بھی اسی طرح کی کانفرنسیں ہونے والی ہیں۔ یہ سب اشارے ہیں کہ شمالی کوریا اب پہلے سے زیادہ اعتماد کے ساتھ مذاکرات کی میز سجانا چاہتا ہے‘ اور چین اور جنوبی کوریا کے مطابق اس (شمالی کوریا) نے سکیورٹی ضمانتوں کے بدلے میں اپنا جوہری پروگرام ختم کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔ یہ ضمانتیں‘ امریکہ کے ساتھ ایک مستقل امن معاہدہ اور جزیرہ نما پر موجود امریکی فورسز کو یہاں سے ہٹانے کی یقین دہانی ہو سکتی ہے۔ درحقیقت شمالی کوریا تاحال دونوں کوریا کو متحد کرنے کے راستے پر ہی گامزن ہے‘ جس کیلئے اس کی نظر میں ضروری ہے کہ امریکہ اس علاقے سے چلا جائے اور چین ان ممالک (شمالی و جنوبی کوریا) پر اپنی برتری قائم کرنے کی کوشش نہ کرے اور دونوں قومیں اپنے بنائے ہوئے راستے پر چل سکیں۔ یہ کوئی آسان ہدف نہیں ہے اور جنوبی کوریا کے وعدوں کے قابل اعتماد ہونے کا معاملہ بھی سوالیہ نشان رہے گا۔ آج حالات ماضی کی نسبت مختلف ہیں۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہوا کہ ان کوششوں کا بارآور ہونا مشکل ہے۔ امریکہ کبھی شمالی کوریا کے وعدوں پر یقین نہیں کرے گا ۔اس کی خواہش ہو گی کہ یہ اپنے جوہری پروگرام کو اس حد تک پیچھے لے جائے کہ اس کیلئے دوبارہ اس ٹیکنالوجی کا حصول ناممکن ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ شمالی کوریا اس کے لئے تیار نہیں ہو گا۔ امریکہ اور شمالی کوریا کے مابین ہونے والے اب تک کے معاہدوں کا ٹریک ریکارڈ یہی بتاتا ہے۔ یہ سفارتی کوششیں بھی کامیاب نہیں ہو سکیں گی‘‘۔