عالمی طاقتوں کی تجارتی اجارہ داری کا جو نظام1990ء میں طے کیا گیاتھا‘ اندازہ ہے کہ نئی صدی کیسے طوفانوں اور جنگوں کے عشروں کے مدوجزر سے گزرتی ہوئی‘ 2020ء تک پہنچے گی؟کوئی بھی انسانی تصور اس کا مکمل احاطہ نہیں کر سکتا۔جاری دو عشروں کے دوران‘ بڑی لہریں اٹھنا شروع ہو چکی ہیں اور کسی بھی وقت بڑا طوفان جنم لے سکتا ہے۔قوموں کے حصے میں آنے والی صدیاں اپنے دامن میں کیا کچھ لے کر آئیں گی؟یہ اندازہ کرنے میں کتنی صدیاں‘ کتنے تصادم اور امن کے کتنے عرصے برپا ہوں گے‘اس موضوع پر تحقیق و تجزیے پر محیط ایک تحریر پیش خدمت ہے۔ ذیل کا مضمون ریوا گوجون کا تازہ ترین تجزیہ ہے۔2004ء کے دور میں انہوں نے ‘ تحقیق و تجزیے کے موضوعات پر‘ نہایت معیاری اور اعلیٰ درجے کے مضامین لکھنا شروع کئے۔آج وہ دنیا بھر کی یونیورسٹیز میںلیکچرز دے رہی ہیں ۔نشریاتی اداروں اورسیمینارز میں حصہ بھی لیتی ہیں۔ان کے تازہ مضمون کا ترجمہ پیش ہے۔
''عالمی معیشت کے سر پر تجارتی جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ان حالات میں یہ محسوس ہو گا کہ دنیا کو امریکی صدر ٹرمپ کے دستخطوں والی '' کاک ٹیل‘‘ زبردستی پلائی جا رہی ہے‘ جس میں ٹویٹس اور ٹیرف برابر مقدار میں ہوں گے اور دہشت گردی کا ٹویسٹ بھی دیا گیا ہے۔ اگر آپ ابہام کو ختم کرناچاہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں کیا ہونے والا ہے؟ تو پھر آپ کو صدر ٹرمپ کے ہتھکنڈوں اور امریکہ کی گرینڈ سٹریٹیجی کے مابین فرق پر‘ اپنی توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ بیسویں صدی کے دوران اس عظیم طاقت کی دشمنیاں اور مخاصمتیں ہی تھیں جنہوں نے گلوبل ٹریڈنگ آرڈر کی تشکیل کی تھی۔ اب اکیسویں صدی میں یہ' 'برابر کی مسابقت‘‘ جیسے اصول کی بحالی ہے جو اس آرڈر کی بنیادوں کو اگر منہدم نہیں کرے گی تو ہلا کر ضرور رکھ دے گی۔ صدیوں پہلے دنیا کی مختلف قوتوں‘ چھوٹی یا بڑی نے کمرشل ٹریڈ شروع کی تو عدم امتیاز (یہ تصور کہ تجارت کے سلسلے میں کسی ایک فریق کو دی گئی رعایتیں ناگزیر طور پر دوسرے فریق کو بھی دینا ہوں گی) اور رعایتِ باہمی (یہ توقع کہ تجارت کے حوالے سے لگائی گئی پابندیوں میں کمی یا ان میں اضافہ دونوں فریقوں کے لئے ایک جیسے ہوں گے) نے بین الاقوامی تجارت میں دو الگ ستون کھڑے کر دئیے تھے‘ جو تنازعات کا باعث بھی بنتے رہے۔ یہ دونوں اصطلاحیں غیر امتیازی سلوک اور رعایتِ باہمی پسندیدہ ترین ممالک کے مابین تجارت کے حوالے سے ہیں (حالانکہ ان کے تحت جو معاملات طے کئے جاتے رہے وہ تجارت میں ''پسندیدہ‘‘ والے معاملے کو چلانے کے لئے نہیں ہوتے تھے )۔ کسی کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کا تصور خاصا پُرانا ہے۔ 1778 ء میں جب امریکہ نے فرانس کے ساتھ سب سے پہلا معاہدہ کیا تھا تو اس میں ایک شق موسٹ فیورٹ نیشن (MFN) یعنی'' پسندیدہ ترین قوم ‘‘کی بھی رکھی گئی۔ اسی زمانے میں امریکہ کے بانیوں میں ایک اہم بحث جاری تھی۔ 1790 ء کی دہائی میں امریکہ اپنے سابق نوآبادیاتی حاکم برطانیہ کے خلاف سرگرم تھا‘ جس نے اپنی نو آبادیوں سے تجارت کے خصوصی حقوق لے رکھے تھے۔ امریکہ کے تجارتی ماہر‘ ڈگلس اے ایرون‘ ان پُرانے وقتوں کے حالات کا احاطہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: امریکہ کو ایک مشکل صورتحال میں چھوڑ دیا گیا تھا اور اسے ویسٹ انڈیز کے ساتھ تجارت کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ تب جیمز میڈیسن اور تھامس جیفرسن‘ جن میں سے ایک ایوان نمائندگان میں خدمات سرانجام دے رہا تھا تو دوسرا بطور سیکرٹری آف سٹیٹ کام کر رہا تھا ‘ نے صدر جارج واشنگٹن سے کہا کہ ''وہ برطانیہ پر دبائو ڈالیں کہ امریکہ کو تجارت کی اجازت دے‘‘۔ خصوصی طور پر انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ برطانیہ سے امریکہ آنے والی اشیا پر ٹیکس عائد کیا جائے ۔یہ دھمکی دی جائے کہ اگر برطانیہ نے ایسا نہ کیا تو امریکہ‘ برطانوی اشیا کی درآمد بند کر دے گا اور فرانس کو تجارت کے حوالے سے خصوصی مراعات سے نواز دے گا۔ لیکن سیکرٹری خزانہ الیگزینڈر ہیملٹن کا خیال تھا کہ جیفرسن اور میڈیسن کی تجاویز ناقابل عمل اور خطرے سے بھرپور ہیں۔بالآخر ہیملٹن کی بات مان لی گئی اور اس طرح ایک معاہدے کے نتیجے میں امریکہ کو ویسٹ انڈیز تک رسائی حاصل ہو گئی۔
جب ہیملٹن نے ملک کے بانیوں سے کہا کہ وہ کمرشل پالیسی کو قومی سلامتی سے جوڑ دیں تو اس وقت بھی امریکہ میں داخلی سطح پر مکمل اتحاد عنقا تھا۔ انہوں
نے کانگرس کو آئینی طور پر یہ فریضہ سونپا کہ وہ لیوی ٹیرف مقرر کرے اور دوسرے ملکوں کے ساتھ تجارت کے معاملات چلائے‘۔ یہ ایک غلط فیصلہ تھا ۔عالمی سطح پر اٹھنے والی ایک لہر نے اس سارے نظام کو ہلا کر رکھ دیا۔ 1930 میں سموتھ ہائولے ٹیرف نے پہلے سے جاری کساد بازاری کے اثرات کو دوچند کر دیا‘ جس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوا کہ 1932 میں ڈیموکریٹس جیت گئے اور فرینکلن روزویلٹ صدر بن گئے۔ جب مسائل بڑھتے گئے تو ٹریڈ ایگریمنٹ ایکٹ 1934 کے ذریعے کانگرس سے کہا گیا کہ وہ اپنے تجارتی معاہدوں پر معاملات طے کرنے کے اختیار سے‘ صدر کے حق میں دست بردار ہو جائے ۔ اس وقت کانگرس نے تجارت کے حوالے سے کچھ دوسرے معاہدوں کی توثیق بھی کر دی تھی۔ کسی ملک کو غیر مشروط پسندیدہ ترین قوم قرار دینے کے اصول کو جنرل ایگریمنٹ آن ٹیرفس اینڈ ٹریڈ (GATT) اور اس کے بعد آنے والے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO)‘ جو آج کل بھی پوری دنیا میں نافذ ہے‘ میں شامل کیا گیا۔ سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ صرف انہی ممالک کے ساتھ تجارت کرتا تھا‘ جو سوویت یونین سے فاصلہ بنائے رکھنے کی یقین دہانی کراتے تھے۔جب سرد جنگ کا خاتمہ ہوا اور امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا تو اس نے GATT/WTO جیسے تجارتی معاہدوں کو آٹو پلے پر لگا دیا۔ 1990 اور 2000 کی دہائیوں میں یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ڈبلیو ٹی او اپنی تقریباً آفاقی رکنیت کے باعث بہت پھیل گئی تو کئی ملکوں نے گروپوں کی صورت میں اپنی تجارتی مراعات بڑھانے اور منڈیوں تک اپنی رسائی کو وسعت دینے کی کوششیں کیں‘ جن کے نتیجے کے طور 1990ء اور 2000ء کے عشروں کے دوران‘ آزاد تجارت کے معاہدے کثرت سے کئے گئے۔
طویل عرصے سے بڑی طاقتوں کے مابین کوئی تنازع نہ ہونے کی وجہ سے‘ آزاد تجارت کے حامی لبرلوں نے‘ اس دلیل کے ساتھ متشککین کو بیدخل کر دیا کہ دنیا میں ریاستی مداخلت کی سب سے زیادہ کھلم کھلا حامی اور آمرانہ حکومتیں بھی‘ اپنی منڈیاں کھول کر اور سیاسی اعتبار سے مغرب کی حامی بن کر بالآخر دیرپا ''جمہوری امن‘‘ کا حصہ بن جائیں گی۔ یہ نظریاتی ولولہ و جوش چین جیسے ملکوں کو 2001ء میں اور روس کو 2011ء میں آزاد تجارت کے اصولوں سے وابستگی کے واضح فقدان اور بہت کم جمہوری اصلاحات کے باوجود‘ ڈبلیو ٹی او میں لے آیا۔ چین کے ڈبلیو ٹی او میں شامل ہونے سے‘ اس کے اقتصادی عروج کے مسابقت ختم کر دینے والے اثر کی تفہیم‘ اب پوری طرح سے ہو رہی ہے۔ کئی سال سے چین کے مرکنٹائل طرز کے ریاستی سرمایہ دارانہ نظام نے بھاری سہولتوں کے حامل ریاست کے ملکیتی کاروباری اداروں کو مصنوعی طور سستی اشیا عالمی منڈی میں ڈھیر کر دینے کا موقع دیا جبکہ اس پورے عرصے میں اعلیٰ قدر کے حامل سٹریٹیجک شعبوں میں اقتصادی خود انحصاری حاصل کرنے کے مقصد سے حکومت انٹلیکچوئل رائٹس چوری کرتی رہی۔ سرمایہ کاری پر پابندیاں اور مقامیت پذیری کے سخت ضابطے لاگو رہے۔ ہائپر گلوبلائزیشن کے پس منظر میں چین کا اقتصادی عروج کئی عشروں کے دوران ‘پوری مینوفیکچرنگ انڈسٹری میں خود کاریت کے پھیلاؤ اور اقتصادی ترقی کے آبادی پر زیریں اثرات نے ‘لاکھوں محنت کشوں کو اقتصادی کرب میں مبتلا کر دیا ہے جو اپنی مہارتوں اور اجرتوں کے لیے مسابقت نہ رہنے والے ماحول میں روزی کمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اقتصادی اضطراب کو سالوں بڑھنے دیا گیا۔ آخر ٹرمپ کے انتخاب کے بعد انتظامی شاخ میں اسے ایک مضبوط آواز مل گئی۔ آزاد تجارت کے پھیلاؤ کے حامی عالمگیریت پسندوں نے سستے مداخل‘ تھوڑی صارفی لاگتوں اور بڑھتی ہوئی منڈیوں کی تلاش میں کثیر قومی کمپنیوں کی عالمی رسائی اور حاشیوں پر چھوڑ دیے گئے محنت کش طبقات کے سیاسی اور سماجی نتائج بہت کم ہونے کے فوائد پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی گئی۔ اب دنیا خود کو ایک ایسی صورتِ حال میں پا رہی ہے جس میں امریکی صدر ٹیرف عائد کرنے اور آزاد تجارت کے معاہدوں سے انحراف کی‘ اپنی بے پناہ انتظامی طاقت کے ساتھ ان محنت کشوں کی پکار کا جواب دے رہے ہیں۔جہاں تجارتی عدم امتیاز کا پرچار کرنے والے ہیملٹن کے پیروکاروں نے‘ گلوبلسٹ دور پر راج کیا‘ وہاں ٹرمپ کا وائٹ ہاؤس کے تحت الشعوری طور امریکہ کے تجارتی پارٹنروں سے وہ کچھ استفادہ کے لیے‘ جو کہ وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ امریکہ کے تجارتی مفاد پر یقین کرنے کے لیے اور چین جیسے تجارتی حملہ آوروں کے خلاف اقدام کرنے کے سلسلے میں ‘جارحانہ دوطرفہ ہونے کی طرف واپس آنے کی پکار پر جیفرسن اور میڈیسن کو اس سمت لگا رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وائٹ ہاؤس ملک کے اقتصادی چیلنجوں کو قومی سلامتی کے لیے بنیادی خطرے کے طور واضح کرنے اور غیرمعمولی‘ یکطرفہ اقدامات کے لیے‘ خواہ اس کا مطلب امریکہ کے اپنے بنائے ہوئے قانون اساس نظام کی خلاف ورزی ہو‘ تجارتی اوزار نکال رہا ہے جیسا کہ سیکشن 301، سیکشن 232 اور انٹرنیشنل ایمرجنسی اکنامک پاورز ایکٹ‘‘۔(جاری)