قومی اسمبلی کے ایوان میں دو اراکین کے درمیان دوڑ کا زبردست مقابلہ ہوا۔کبھی عابد شیر علی آگے نکل جاتے ۔کبھی مراد سعیدپیچھے۔ جہاں تک دوڑ کے مقابلے میں حصہ لینے کا سوال ہے‘ عابد شیر علی کم و بیش ہر دوڑ میں آگے رہتے ہیں۔اس دوڑ میں بھی عابد شیر علی کا پلڑا بھاری تھا۔ عابد شیر علی آگے نکلنے لگتے تو (ن) لیگ کے منتخب اراکین‘ انہیں راستے میں روک لیتے۔اور جب کسی راستے کو اپنے لئے آسان سمجھتے‘ وہاں پہلے ہی سے دو تین لیگی اراکین دیوار بنا کر کھڑے ہو جاتے۔ سپیکر صاحب چاہتے تو عابد شیر علی کا راستہ روکنے والوں کی مزاحمت کر سکتے تھے۔مزاحمت کرنے والے (ن) لیگی تنو مند اور فربہ اندام تھے جبکہ مراد سعید انہیں بمشکل ہی روک پاتے۔اس کے باوجود ان کی پھرتیوں کی داد دینا پڑتی ہے۔عابد شیر علی بارہا لیگیوں کو چکما دے کر نکلتے رہے مگرا نہیں اپنی ہی جماعت کے صحت مند اور قدآورایم این ایز احتیاط سے روک لیتے ۔عابد شیر علی کا مسئلہ ذرا پیچیدہ تھا۔ایک طرف انہیں روکنے والے رکن اچھی طرح صحت مند تھے۔عابد شیر علی اکہرے اورہلکے پھلکے نوجوان ہیں۔دوسری طرف ان کے ''ہم جماعت‘‘علی محمد خان بیشتر مسلم لیگیوں کو راستے سے ہٹا لیتے لیکن عابد شیر علی کبڈی کے کھلاڑی کی طرح مخالفین کی پیدا کردہ رکاوٹیں دورکر کے نکل جاتے۔سپیکر صاحب نے غالباً طے کر رکھا تھا کہ رکاوٹوں والی اس دوڑ میںکسی لیگی فائٹر کو قابو میں نہیں آنے دیں گے۔
میں ٹی وی پرایوان کے اندرونی حالات دیکھنے میں مصروف تھا۔ عابد شیر علی کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے بھاری بھرکم ساتھیوں کی پیار بھری رکاوٹیں ہٹانے میں مصروف تھے۔ دوسری طرف بھاری بھرکم (ن) لیگی نوجوان '' تازہ تازہ ‘‘وزیر خزانہ کے چاروں طرف لائل پوری گھنٹہ گھر کی طرح‘ آہنی دیوار بنائے کھڑے تھے۔یوں لگ رہا تھا جیسے انہوں نے بجٹ تقریر پڑھنے کے لئے پوری ریہرسل کر رکھی تھی۔ انہوں نے محافظین پر نظریں گاڑ رکھی تھیں کہ دبلے پتلے عابد شیر علی‘ شوں کر کے ٹانگوں کے نیچے سے نکل نہ جائیں اور یہی خطرہ انہیں بجٹ پڑھنے والے اپنے چست و چالاک وزیر خزانہ سے تھا کہ اگر وہ بجٹ سمیت بھاگ کھڑے ہوں تو کوئی اور ہی تماشا نہ بن جائے۔ لیگی محافظ کامیاب رہے۔ ان کا وزیر خزانہ بھی کامیاب رہا۔
دائرے کے اندر مفتاح صاحب‘ مائیک دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے تھامے کھڑے تھے۔وہ لیگی محافظوں کے دائرے میں‘ ایک مضبوط وزیر خزانہ کی طرح بات کر رہے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ ان کا مددگار'' وزیر خزانہ‘‘حسب ضرورت‘ محفوظ دائرے کے اندر کھڑا ہے۔یہ قدآوراور چست و چالاک جسم کے مالک ہارو ن اختر تھے۔بجٹ تقریر کے آخری لمحات میں تقریر کے مسودے کو پوری احتیاط سے تھامے کھڑے تھے۔جہاں بھی انہیں شک پڑتا ‘وہ مونڈی موڑ کے اپنے'' مدد گار وزیر خزانہ‘‘ کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھتے کہ وہ ہنگامی حالات میں پوری طرح ''چست و چالاک‘‘ کھڑے ہیں۔بعض اوقات ایسے مواقع بھی آئے کہ مفتاح صاحب دورانِ تقریر ذرا نروس ہوجاتے لیکن ہارون صاحب نے صورت حال کو سنبھالا۔ جیسے ہی ضرورت پڑتی وہ فوراً زیر نظر صفحہ‘ دبوچ کر تقریر شروع کر دیتے۔
(ن) لیگ''کمپنی ‘‘کی طرف سے مہیا کردہ حفاظتی گارڈز کی کمک لینے کو‘ پوری طرح تیارتھی۔ دیکھنے کو بظاہر بجٹ سیشن بڑا پر امن تھا۔ لیکن ایک ایک(ن) لیگی رکن ‘اپنی اپنی ڈیوٹی پر'' کس ‘‘ کے کھڑا تھا۔ بہت سے جاں فروش محافظ اس بات کا بھی خیال رکھ رہے تھے کہ ''تازہ تازہ‘‘ وزیر خزانہ اگر چکرا کے گرنے لگے تو ہارون اختر انہیں دونوں بانہوں میں سنبھال کرتقریر کا مسودہ بھی گرفت میں لے لیں اور '' ربط خطابت‘‘ کو ٹوٹنے نہ دیں۔ہال میں داخل ہونے کے تمام دروازوں پر ایک ایک لیگی گارڈ چستی سے کھڑا تھا۔انہیں سمجھا دیا گیا تھا کہ اگر میاں صاحب کسی دروازے سے اندر داخل ہونے لگیں تو نہایت ادب کے ساتھ انہیں روک دیا جائے۔ میاں صاحب تیس برس سے مقتدر شخصیات کی طرح‘ راستے کھول کر آگے نکل جانے کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ میاں صاحب نے ایوان کے اندر جانے سے گریز کیا۔ صرف گردن موڑ کے اپنے''تازہ تازہ‘‘ وزیر خزانہ پر ایک نگاہ ڈالتے ہوئے واپس چلے گئے۔ایسے ہنگامی حالات میں ان کے فدائین نے راستہ بنا دیا۔ محافظین کو اچھی طرح علم تھا کہ ان کے عظیم قائد اگر تقریر کے موڈ میں ہوں تو اس کا متبادل بندوبست پہلے سے کر کے رکھ لیا جائے۔اگر میاں صاحب کو تقریر زور سے آئی ہو تو ان کے گارڈز فوری طور پر چوکس رہتے ہیں۔ دوچار تقریروں کے مسودے گاڑی میں سنبھال کر رکھے ہوتے ہیں۔ا گرانہیں طے شدہ پروگرام میں ذرا سی گڑبڑ کا بھی اندیشہ ہوتو میاں صاحب اپنی پسند کی تقریر کا کوئی بھی مسودہ اٹھا کر شروع ہو جاتے ہیں۔احتیاط کا یہ حال ہے کہ میاں صاحب نے سیاسی جلسوں میں بطور وزیراعظم ایک اعلیٰ درجے کی تقریر کا مسودہ اپنے فدائین کے لئے رکھا ہوتا ۔دوسری تقریر جیل کے حاضرین کے لئے بھی تیار ہوتی ہے۔ خدانخواستہ بقول میاں صاحب ‘ انہیں جیل جانا پڑاتو وہاں استقبال کے لئے پہلے سے کھڑے حاضرین کا مکمل انتظام موجود ہو۔