بیرسٹر اعتزاز احسن آمریت کے زمانوں میں ایک کہانی سنایا کرتے تھے۔ ایک بادشاہ کو اس کے خوشامدی ہر وقت اپنے گھیرے میں لئے رکھتے۔ اس کی ہر با ت پر سر جھکا کر تعریفیں کرتے۔ بادشاہ جب بھی کوئی نیا لباس پہنتا۔اس کے خوشامدی ‘تعریفوں کے پل باندھ دیتے۔ کوئی کہتا ''یہ لباس آپ کے شایان شان ہے‘‘۔ خوشامدی اس لباس کی تعریف کر کے درزی کے فن کی داد دے رہے تھے۔دنیا کے سب سے بڑے بادشاہ‘ اس لباس کو عزت بخش رہے تھے۔غرض بادشاہ ہر بہانے اپنی شان و شوکت اور تعریف سن کر خوش ہوتا۔ خوشامدی ایک دوسرے سے بڑھ کر بادشاہ کی تعریفیں کرتے۔ آخر کار بادشاہ کو بھی یقین ہو گیا کہ وہ دنیا بھر میں سب سے خوب صورت لباس پہننے والا ‘انتہائی خوش ذوق انسان ہے۔کوئی اسے تحفہ دیتا تو اسے دیکھ کر بار بار فخر سے اپنا سر اونچا کر لیتا۔ کوئی رومال اس کے ہاتھ میں دکھائی دیتا تو سارے درباری اس کی تعریف و توصیف میں ‘زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے۔جب بادشاہ کو مسلسل اپنے ملبوسات کی تعریفیں سنتے سنتے یقین ہو گیا کہ وہ دنیا کا سب سے زیادہ خوش لباس انسان ہے تو ایک دن درباریوں کو کیا سوجھی؟ کہ انہوں نے بادشاہ کی عادت کے مطابق جو بھی نیا لباس پیش کیا ‘ وہ ناک بھنویں چڑھانے لگتااور لباس اتار کے پھینک دیتا۔ ایک موقع پر جب بادشاہ نے سارے لباس ایک ایک کر کے رد کر دئیے تو درباریوں نے ہر نئے لباس میں عیب نکالنا شروع کر دئیے۔ بادشا ہ جو لباس پہن کر دیکھتا‘ درباری کہتے کہ'' جہاں پناہ! یہ بھی آپ کے شایان شان نہیں‘‘ ۔ہوتے ہوتے جب سارے لباس مسترد کر دئیے گئے تو بادشاہ نے درزیوں کی طرف دیکھا اور کہا ''یہ کیا ہے‘‘؟ بادشاہ نے درزیوں کو دیکھا۔ وہ ایک سے بڑھ کر ایک‘ اس کی تعریف کرتے۔ آخر کار جب سارے درباریوں نے یکے بعد دیگرے ''نئے لباسوں‘ کے قصیدے پڑھ لئے تو ایک درباری نے کہا'' عالم پناہ!آج تک دنیا میں کسی بادشاہ نے ایسا لباس نہیں پہنا ہو گا‘ جیسا آج آپ نے زیب تن کیا ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہم بازار جا کے دنیا کو ‘بادشاہ سلامت کی ساری شان و شوکت دکھائیں‘‘۔ بادشاہ بازار سے گزرتا ہوا ایک پررونق چوراہے میںآ گیا۔درباری تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے کہ ایک بچہ لوگوں کا ہجوم دیکھ کر تماشائیوں کے اندر گھس گیا۔جب قریب آکر بادشاہ کو دیکھا تو باآواز بلند بولا''بادشاہ ننگا۔ بادشاہ ننگا‘‘۔بچے کی آواز سن کر درباریوں نے بھی آوازیں لگائیں ''بادشاہ ننگا۔ بادشاہ ننگا‘‘۔ بادشاہ سلامت دیر تک کھڑے‘ اسی حالت میں اپنی تعریفیں سن رہے تھے کہ معصوم بچے نے پھرتالی بجا کر کہا''بادشاہ ننگا‘ بادشاہ ننگا‘‘۔ پھر کیا تھا؟درباری‘ بادشاہ کی تعریفیں کرنے لگے۔ شاہی محل واپس پہنچ کر بادشاہ نے درباریوں کو دس دس کوڑے لگانے کا حکم دیا۔ وہ بادشاہوں کا زمانہ تھا۔ اسے پتہ چل جاتا تھا کہ ''بادشاہ ننگا‘‘ہے۔ لیکن درباریوں کی زبانوں سے تعریف ہی نکلتی۔
سب سے پہلے ایوب خان اقتدار پر قبضہ جمایا۔ افسروں نے ان سے پوچھا کہ ''حکومت اب کیسے چلائیں؟‘‘ ایوب خان نے جواب دیا''ہم اپنی ساری فوجیں سنبھالتے ہیں تو یہ آئین وائین کیا ہے‘‘؟ افسروں نے بمشکل سمجھایا تو ایوب خان نے جواب دیا'' فوج کے قواعد و ضوابط ادھر ادھر کر کے وہ چیز بنا لو‘ جسے تم آئین کہتے ہو‘‘۔ایوب خان کے بعد یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ افسروں نے بڑی نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی تو یحییٰ خان نے جواب دیا''یہ افسروں وفسروں کو بٹھا دو اور ان سے کہو آئین تیار کر دے‘‘۔ یحییٰ خان نے چھت کی طرف دیکھا اور چھڑی گھٹنے پر مارتے ہوئے دروازے کا رخ کیا۔یحییٰ خان نے مشرتی پاکستان پر فوج کشی کر کے اپنے عوام کے خلاف اعلان جنگ کیا۔اس نے بھارتی افواج کے گھیر ے میں آئی فوج پر خود حملہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ نتیجہ بڑا شاندار تھا۔گھیرے میں آئی ہوئی پاکستانی فوج کو مزید گھیرے میں کر لیااور بھارت کا کام آسان ہو گیا۔
یحییٰ خان کے بعد جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا اور اپنے کندھوں پر لگے رینکس ''اتار‘‘ دئیے۔جناب نوازشریف ''کینٹ در کینٹ‘‘ فتوحات کرتے ہوئے‘ اقتدار پر قبضہ کرنے والے باقی ماندہ جنرلوں کو‘ ان کے گھروں کو بھیج دیا۔سب کا خیال تھا کہ اب میاں صاحب نے اپنا اقتدار مستحکم کر لیا ہے۔ میاں صاحب نے بھی یہی سمجھا۔ ان کے بچوں نے بھی یہی سمجھا۔اور اقتدار خود اپنی صاحبزادی کو منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ دیکھئے یہ اقتدار دوبارہ میاں صاحب کو منتقل ہوتا ہے یا ان کی صاحبزادی کو؟