تحریک انصاف کے سینئر وائس پریذیڈنٹ ‘ ایم این اے اسد عمر نے ایک کروڑ نئی ملازمتیں مہیا کرنے کے اپنے ارادے کی وضاحت میں تحریر بھیجی ہے۔جسے قارئین کی دلچسپی کے لئے شائع کیا جا رہا ہے۔
''تحریک انصاف کا 100روزہ ایجنڈہ پیش کرنے کے بعد ہمیں جو سب سے پہلی کامیابی حاصل ہوئی ہے ‘وہ یہ ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار روزگارپیدا کرنے‘ اس کی اہمیت اور حصول کے بارے میں بحث کی شروعات ہوئیں‘لہٰذا ہم ملک میں ملازمتیں پیدا کرنے کے معاملے کو اقتصادی گفتگو کا مرکزی موضوع بنانے کی کوشش میں کامیاب رہے۔ میں اس مضمون میں وضاحت کرنے کی کوشش کروں گا کہ ایک کروڑ ملازمتوں کا ہدف کہاں سے آتا ہے؟ اس کی اہمیت کیا ہے؟ اور ہم نے اس ہدف کو پورا کرنے کی کیا منصوبہ بندی کی ہے؟
سب سے پہلے ہم اس بات سے آغاز کرتے ہیں کہ پانچ سالوں میں ایک کروڑ ملازمتیں ہمارا ہدف کیوں ہیں؟ ماہرین کے فراہم کیے گئے تخمینے کے مطابق ہر سال تقریباً 20 لاکھ اضافی نوجوان روزگار کے متلاشی ہوتے ہیں۔ اس کے مطابق اگلے پانچ سالوں میں ایک کروڑنوجوان ملازمتوں کے خواہاں ہونگے۔اب جبکہ ہم جانتے ہیں کہ اگلے پانچ برسوں میں ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار مطلوب ہوگا‘توان ملازمتوں کے حصول کے لئے ریاست کے کردار کو دیکھنا ہو گا۔ آئین کے آرٹیکل 38 کے مطابق ریاست تمام شہریوں کو ملک میں دستیاب وسائل کے مطابق روزگار فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔ چنانچہ یہ ہماری آئینی ذمہ داری ہے کہ ہم اگلے پانچ سالوں میں ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار مہیا کریں۔ ہمارے اس ہدف پر تنقید کرنے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بے روزگاری میں اضافے کی منصوبہ بندی کرنا چاہئے۔ کون سا مہذب ملک بے روزگاری بڑھانے کے منصوبے بناتا ہے؟
آئینی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ پاکستان کی نوجوان آبادی ملک کا بڑا اثاثہ اور اقتصادی اہمیت کی حامل بن سکتی ہے‘ اگر اسے درست ہنر مندی‘ تعلیم اور میرٹ پر پیداواری مواقع فراہم کیے جائیں۔ اگر ہم یہ اقدام نہیں کرتے تو یہ نوجوان بدترین اقتصادی اور سماجی نتائج کے ساتھ ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔ بجائے اس پر کہ ہمیں ایک کروڑ افراد کے لئے روزگار کا ہدف رکھنا چاہیے یا نہیں‘ بحث اس بات پر ہونی چاہیے کہ یہ ہدف کیسے بہترین انداز سے پورا کیا جائے۔پرائیویٹ سیکٹر کسی بھی ملک میں ترقی اور کام کی پیداوار میں ایک بنیادی انجن کی حیثیت رکھتا ہے۔ حکومت کاروبار کو بڑھانے اور سرمایہ کاری میں فروغ کے لیے سہولیات فراہم کر کے اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور نجی شعبے میں روزگار پیدا کرتی ہے۔لیکن سرِ دست پرائیویٹ سیکٹر ٹیکسوں اور پابندیوں کے بوجھ میں ہے اور نہ ہی اسے معاشی فیصلہ سازی میں برابری کی سطح پر شمار کیا جا رہا ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ حکومت کا کام کاروبار اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کرکے نئی سرمایہ کاری کروانا ہے۔
اب آتے ہیں اس پر کہ یہ روزگار پیدا کیسے ہونگے؟پرائیویٹ سیکٹر کو سہولت دینے اور اس میں شامل کرنے کی ہم وضاحت کرچکے ہیں۔دوسرا اہم جزو ان شعبوں کو ترجیح دینا ہے جو کام میں تیزی اور پاکستانی معیشت سے نسبتاً زیادہ مطابقت رکھتے ہیں۔ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ معیشت کے شعبوں میں جہاں نئی ملازمتیں پیدا کرنے کا سب سے زیادہ امکان ہے‘ وہ مینوفیکچررز (SMEs)، تعمیر، سیاحت اور سماجی خدمات (تعلیم، صحت) کے شعبے ہیں۔ یہ تحقیق انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی رپورٹ ورلڈ ایمپلائمنٹ اینڈ سوشل آئوٹ لُک 2015ء پر مبنی ہے۔ تحریک انصاف کی پالیسیوں کی سفارشات‘ پاکستان بزنس کونسل (پی بی بی) 2018ء کی رپورٹ میڈ ان پاکستان کی سفارشات سے ہم آہنگ ہیں۔پالیسی کے کچھ اہم نکات جوسرمایہ کاری کو فروغ دینے اورمطلوبہ ملازمتوں کی تخلیق کرنے میں مددگار ہیں‘ وہ یہ ہیں:
1۔توانائی جیسے شعبوں میں ٹیکس کا تناسب کم کر کے بنیادی لاگت میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
2۔اہم شعبوں میں نئی سرمایہ کاری کے لیے ٹیکسوں میں حوصلہ افزائی۔
3۔ ترجیحی شعبوں کے مالی معاملات کے مسائل میں رسائی ۔
4۔ مالی خسارے کو چھپانے کے لئے رقم کی واپسی میں مالی مراعات کی پریکٹس کا خاتمہ۔
5۔ یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی شراکت داروں کے تعاون سے ہنر کی تربیت اور تکنیکی تعلیم۔
6۔ نجی شعبے کی وزیر اعظم کی سربراہی میں کاروباری کونسل میں نمائندگی۔
7۔ ٹورازم اور سرمایہ کاری میں پاکستان کے مثبت تاثر سے فروغ اور نجی مہم جوئی میں اضافہ ۔
8۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے تجربے اور علم سے استفادہ کر کے سرمایہ کاری میں سہولیات کے ذریعے معیشت میں بہتری۔
9۔ سماجی شعبے کی ترجیحی بنیادوں پر صحت اور تعلیم کے سیکٹرز میں سرمایہ کاری۔
10۔ ماحول دوست معیشت کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف ماحول کی بہتری بلکہ ملازمت اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا کرنا۔
ان اقدامات اور ترجیحی شعبوں کے لیے تفصیلی طور پر پالیسیاں مرتب کی جارہی ہیں۔ مثال کے طور پر ٹیکسٹائل کی پالیسی پہلے ہی جاری کی گئی ہے۔ آنے والے ہفتوں میں دوسرے شعبوں کے حوالے سے بھی پالیسی لائی جائے گی۔ بحیثیت ایک قوم آنے والی نسل کا ہم پر حق ہے کہ ہم اسے ایک باعزت زندگی دیں اور پاکستان کی خوشحالی میں اہم کردار بنائیں۔ آئیے ہم اپنی آئینی ذمہ داریوں پر صرف زبانی کلامی کے بجائے عملی اقدامات کریں۔ جب پاکستانی قوم کسی مقصد کے حصول کا ارادہ کر لے اور متحد ہو جائے تو اس کے سامنے کوئی چیز مشکل اور نا ممکن نہیں رہتی۔ جیسے ہم نے عالمی طاقتوں کی مخالفت کے باوجود ایک ایٹمی طاقت بن کر دکھایا۔ میں آپ سب کو دعوت دیتا ہوں کہ اس مقصد کے حصول اور خوشحال پاکستان کے لیے ہماری رہنمائی کریں۔ آخر کار یہ قوم22 کروڑ عوام پر مشتمل ہے‘ نہ کہ صرف چند ایک گھرانوں پر‘‘۔