سیاسی قیادت اور دیگر حکمران طبقوں کے درمیان وہ یک جہتی جو پاکستان جیسے خطرات میں گھرے ہوئے ملک کو بچانے کے لئے ہمہ گیر دفاعی اقدامات کرنے کے لیے ضروری ہے‘ ہم وقت کے ساتھ ساتھ اس سے تیزی کے ساتھ دور ہو رہے ہیں۔ہر آنے والے دن میں ہمارے دفاع کو مضبوط کرنے کی کوئی تدبیر مطلوبہ تقاضوں میں آگے بڑھنے کے بجائے ہم پیچھے ہٹتے جا رہے ہیں۔یہ تازہ مضمون اسی سلسلے کی کڑی ہے‘ جو کئی دنوں سے ''دنیا‘‘ میں شائع کئے جا رہے ہیں۔ملاحظہ فرمائیے۔
'' جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے رہنما کِم جونگ ان‘ کے ساتھ طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی‘ تو اس کے بعد مختلف سطحوں پر کئی روز تک تاریخی مماثل‘ لیبیا کے بارے میں باتیں کی جاتی رہیں۔ امریکی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر‘ جان بولٹن نے اس حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریا کے ساتھ ڈیل کی بنیاد 2003ء اور 2004ء کا ''لیبیا ماڈل‘‘ ہے جب معمر قذافی نے اپنا سارا نیوکلیئر پروگرام‘ امریکہ کے حوالے کر دیا تھا۔ لیکن شمالی کوریا کے نزدیک لیبیا والا معاملہ بدشگونی کی علامت ہے‘ کیونکہ 2011ء میں اپنا جوہری پروگرام مغرب کے حوالے کرنے کے بعد‘ دس سال سے بھی کم عرصے میں‘ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے لیبیا کے مقامی باغیوں کے ساتھ مل کر قذافی حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ پیونگ یونگ (شمالی کوریا کا دارالحکومت) کے لئے تاریخ سے صرف لیبیا والا سبق ہی نہیں ہے کہ غیر مسلح ہونے کے بعد کیا کیا نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں؟ بلکہ عراق کی مثال بھی ہے۔ 2003 ء میں عراق نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے وسیع پیمانے پر تباہی مچانے والے ہتھیاروں کی تلاش اور تیاری ترک کر دی ہے۔ حتیٰ کہ عراق نے انسپکٹروں کو معائنے کی اجازت بھی دے دی تھی ۔ اس کے باوجود امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر عراق پر حملہ کیا‘ اسے تاخت و تاراج کر دیا اور وہاں حکومت تبدیل کر دی۔ ایک اور تازہ مثال ایران کی ہے۔ 2015ء میں ایران نے رضا مندی ظاہر کی کہ وہ اس پر لگائی گئی پابندیوں کے ہٹائے جانے کے بدلے میں اور کچھ ریلیف کے عوض اپنا نیوکلیئر پروگرام محدود کر لے گا لیکن 2018 میں امریکی صدر ٹرمپ نے اس ڈیل کو ختم کر دیا۔
کیا کوئی ایسا ماڈل بھی ہے جو شمالی کوریا کو پسند آئے ؟ اس کا جواب ہے ''ہاں‘‘ اور وہ ملک ہے پاکستان۔ اگر شمالی کوریا کو لیبیا اور پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ یقیناً پاکستان کی طرح طاقتور بننا پسند کرے گا۔ پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام 1970ء کی دہائی میں شروع کیا تھا‘ اور وجہ تھی بھارت کا ایٹمی پروگرام۔ پاکستان چاہتا تھا کہ اپنے طاقتور ہمسائے بھارت کے ساتھ طاقت کا توازن قائم رکھے تاکہ اس کی سا لمیت اور سلامتی خطرے میں نہ پڑے۔ پاکستانی سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو‘ جو بعد میں ملک کے وزیر اعظم بھی بنے‘ نے دعویٰ کیا تھا ''اگر بھارت بم بنائے گا تو ہم گھاس اور پتے کھا لیں گے‘ حتیٰ کہ بھوکے بھی رہ لیں گے‘ لیکن اپنا بم ضرور بنائیں گے‘‘۔ 1998 ء میں ایک چمکدار روشن دن‘ بلوچستان کے ضلع چاغی کے ایک پہاڑ میں پاکستان نے کئی ایٹمی دھماکے کئے۔ اس موقع پر پاکستان کے چیف سائنس دان نے یہ کہہ کر بٹن دبا دیا تھا ''سب تعریفیں اللہ کیلئے ہیں‘‘۔ ایک بڑا دھماکا ہوا‘ جس نے اس بڑے پہاڑ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
2016 ء میں بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹس نے اندازہ لگایا تھا کہ پاکستان کے پاس 130 تا 140 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ یہ تخمینہ بھی لگایا گیا تھا کہ 2025 ء تک یہ اپنے ہتھیاروں کی تعداد تقریباً دگنی کر سکتا ہے۔ پاکستان اپنے یہ ہتھیار درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں‘ کروز میزائلوں‘ ایف سولہ طیاروں اور میدان جنگ میں محدود فاصلے تک مار کرنے والے نظام کے ذریعے ہدف تک پہنچا سکتا ہے اور دشمن کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کو یقین ہے کہ شمالی کوریا‘ اسلام آباد کے تجربے کا گہری نظر سے مطالعہ کر رہا ہو گا‘ کیونکہ دونوں ملکوں میں بہت سی چیزیں خاصی مماثلت رکھتی ہیں۔ مثلاً شمالی کوریا تقسیم سے پہلے اسی طرح جنوبی کوریا کا حصہ تھا‘ جس طرح پاکستان ہندوستان کا۔ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا میں بھی ویسے ہی اختلافات ہیں‘ جیسے پاکستان اور بھارت میں۔ شمالی کوریا ‘جنوبی کوریا سے اسی طرح خطرہ محسوس کرتا ہے‘ جیسے پاکستان بھارت سے۔ کچھ ملکوں کا خیال ہے کہ پاکستان اور شمالی کوریا ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں ایک دوسرے سے تعاون بھی کرتے رہے۔
پاکستان کا ماڈل اور بھی کئی حوالوں سے شمالی کوریا کا پسندیدہ ہو سکتا ہے۔ جیسے یہ حقیقت کہ پاکستان کے ایٹمی طاقت نے بھارت کے ہاتھ روک دئیے ہیں۔ 1971 ء تک دونوں ملکوں میں تین بڑی جنگیں ہو چکی تھیں۔ 1971ء میں بھارت نے پاکستان کے مشرقی بازو کو الگ کرنے میں شر انگیز کردار ادا کیا تھا۔ ایٹمی ہتھیاروں نے بھارت کی جانب سے کسی بڑے حملے کے خطرے کو ختم یا محدود کر دیا ہے۔ اب اگر بھارت پاکستان پر حملہ کرے گا تو منہ کی کھائے گا۔ 1987ء میں صدر جنرل ضیا الحق نے بھارتی وزیر اعظم پر واضح کر دیا تھا کہ اگر آپ کی فورسز نے دونوں ملکوں کے مابین سرحد کو ایک انچ بھی پار کیا تو ہم آپ کے شہروں کو تباہ کرنا شروع کر دیں گے۔ 1999ء میں کارگل آپریشن ہوا۔ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے کارگل سیکٹر کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا‘ اس کے باوجود بھارت نے اس جنگ کو محدود رکھا اور بین الاقوامی سرحد پار کرنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ بھارتی قیادت جانتی تھی کہ اگر بین الاقوامی سرحد پار کی تو اس کے فوجیوں کا استقبال ایٹمی ہتھیاروں سے کیا جائے گا۔ یہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار ہی ہیں‘ جن کی وجہ سے بھارت کو سرحد عبور کرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ علاوہ ازیں یہ پاکستان کی جوہری صلاحیت ہی ہے جس کی وجہ سے مغربی ممالک اس کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ دنیا کا واحد مسلم ملک ہے‘ جس کے پاس ایٹمی اسلحہ ہے ۔ پاکستان کی وزارت خارجہ جوہری اثاثوں کو'' پاکستان کا عمدہ ترین گھنٹا‘‘ یعنی عمدہ ترین دور قرار دیتی ہے۔ پاکستان کے جوہری پروگرام کو عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہے۔ 1998 ء میں جب ایٹمی دھماکے کئے گئے تھے تو ملک بھر میں جشن منایا گیا ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کو ایٹمی پروگرام بنانے اور چلانے کی ایک قیمت بھی ادا کرنا پڑی ہے۔ جیسے ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے پر دستخط نہ کرنے کی وجہ سے اسے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی درآمد کرنے کے معاملے میں پابندیوں کا نشانہ بننا پڑا۔
ان ساری باتوں کے باوجود شمالی کوریا کے لئے بیلنس شیٹ پاکستانی ماڈل کی حمایت کرتی ہے۔ صدام اور کرنل قذافی نے اپنی اپنی ترجیحات کے تحت اقدامات کئے اور اس وقت وہ دونوں اس دنیا میں نہیں ہیں۔ شمالی کوریا اپنے لئے ایک الگ طرح کا پروگرام رکھتا ہے۔ وہ شاید مشرقی ایشیا کا پاکستان بننے کا خواہش مند ہے‘‘۔