بہت دنوں سے مولانا فضل الرحمان کی تصویریں اور خبریں میڈیا میں نظر نہیں آئیں۔ حضرت مولانا نے بھولے ہوئے ہوؤں کے لیے آج موقع نکال کے‘ چند معروف ٹی وی چینلز پر اپنا رخ مبارک ظاہر کر ہی دیا۔ لیکن اپنی پریس کانفرنس میں وہ یہ بات کہنا نہیں بھولے کہ انہیں کافی دنوں سے نظر انداز کیا جا رہا تھا۔ حالانکہ جب میاں نوازشریف اقتدار میں تھے‘ تو میڈیا پر دوسرا نمبر مولانا فضل الرحمان کا ہوا کرتا تھا۔جب انتخابی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہوں‘ اس دوران مولانا صاحب کا ٹی وی سے اوجھل رہنا انا کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔سر میں درد ہوتا ہے۔ جوڑ بھاری بھرکم جسم کا بوجھ اٹھا کر ''چٹخ چوں‘‘ کرتے ہیں۔مگر اس حالت میں بھی وہ صف اول کے وزیروں سے رابطوںمیں ہرگز کمی نہیں آنے دیتے۔ ملک میں دو لیڈر اقتدار میں ہوں‘تو مولانا ہلکے اور مسرور لہروں والے پانیوں پر لہراتے نظر آتے ہیں ۔د و حکمران اگر مستی میں ہوں تووہ ہر وقت چہلیں کرتے ہیں۔مولانا کے پسندیدہ مقامات پنجاب میں پائے جاتے ہیں۔اگر اسلام آباد جائیں تو وہاں کے محلات میں چہکتے سنائی دیتے ہیں۔ اورا گر زرداری صاحب لاہور میں ہوںاور طویل قیام بھی کریں تو مولانایہی کہتے ہیں کہ زیادہ وقت نہیں ملا۔ مولانا اپنی گفتگو میں اپنے نیاز مندوں کو یہ بتاتے ہیں '' میں خود پر ہونے والی تنقید میں اپنی کمزور ی تلاش کرتا ہوں‘‘۔کمزوری تلاش کرنے کی عادت مولانا کو بلاوجہ بیزار کرتی ہے۔ پریس کانفرنس کے دوران مولانا نے ایک بڑا ہی پرمغز بیان صادرفرمایا کہ''فوج ایک ادارہ ہے جو نہ صرف ناگزیر بلکہ ریاست اور سرحدوں کا تحفظ بھی کرتا ہے لیکن جھگڑا اس وقت جنم لیتا ہے جب فوج سیاست میں حصہ لینا شروع کر دے‘‘۔
مولانا کرپشن کے بہت خلاف ہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ احتساب بیورووالوں سے بات چیت کرتے ہوئے‘ ایک بے خوف سیاست دان کی طرح‘ اپنے نیاز مندوں کوبے تکلفانہ بتایا کہ'' کون سا سیاست دان ؟کتنی ملاقاتوں میں؟ کتنے حکمرانوں سے بڑے سے بڑا ''بنڈل‘‘ اٹھا لیتا ہے؟ بعض اوقات تو وہ ڈبوں کے صرف نیچے سے دو انگلیاں ڈال کر‘ تین چار بنڈل اٹھا کے لطف اندوز ہوتے ہیں۔مولانا نے اس الزام کی سختی سے تردید کی کہ'' جیسے پورے ملک کا پیسہ صرف سیاست دان کھا گئے ہوں‘‘۔ اگر چہ حالیہ پے در پے مقدمات کے فی الوقت سامنے آنے والے نتائج کا جائزہ لیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ''سیاست دانوں کا ہاتھ صرف اوپر رہتا ہے۔اور میں بھی ایک سیاست دان ہوں‘‘۔ حضرت مولانانے اپنے بارے میں کہاکہ'' صداقت اور صفائی کا قائل ہوں۔ کچھ کمزوریاں ہمارے اندر بھی ہوتی ہیں لیکن ایسی کمزوریاں دوسروں میں زیادہ ہیں‘‘۔ میڈیا کے حوالے سے مولانا کا فرمان عالی شان ہے کہ'' دنیا میں جہاں جمہوریت ہے‘ وہاں صحافت آزاد ہے ۔میڈیا کی آزادی کا یہ مقصد نہیں کہ ہم مادر پدرآزادی چاہتے ہیں‘‘۔ وقت وقت کی بات ہوتی ہے کہ ملک کو غلط سمت میں چلانا ہو تو سیاست دان ٹیڑھے راستوں پر نکل جاتے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان‘ میاں ثاقب نثار نے مشہور زمانہ اصغر خان عملدرآمد کیس میں اپنے خیالات کا اظہا رکرتے ہوئے فرمایا''پرویز مشرف کے پاکستان میں آنے میں جو رکاوٹ تھی‘ وہ ختم کر دی‘ اب ان کی بہادری پر ہے کہ وہ آتے ہیں یا نہیں‘ پرویز مشرف آئیں اور دکھائیں کہ وہ کتنے بہادر ہیں؟‘‘۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں سب کچھ کہہ ڈالا اور پرویز مشرف کو واضح طور پر بتا دیا کہ اب حیلے بہانے نہیں چلیں گے۔کیس کی سماعت کے دوران ایک موقع پرچیف جسٹس صاحب نے ریمارکس دیئے '' اصغر خان عملدرآمد کیس میں مزید تاخیر برداشت نہیں کریں گے۔ ایک منٹ ضائع کئے بغیر تفتیش مکمل کی جائے‘‘۔ چیف جسٹس نے ایک موقع پر جاوید ہاشمی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کہا تھا کہ ''میں بھاٹی سے انتخاب لڑوں تو نہیں جیت سکتا۔ ہاشمی صاحب مجھے الیکشن لڑنا نہیں آتا۔ آئین کا تحفظ کرنا آتا ہے‘‘۔یاد رہے دیگر ن لیگیوں کی طرح جاوید ہاشمی بھی جوش خطابت میںمعزز چیف جسٹس پر نشتر زنی کر چکے ہیں اوریہی چیف صاحب نے انہیں یاد دلایا تھا کہ میرا کام الیکشن لڑنا نہیں‘ آئین کا تحفظ کرنا ہے۔