تبدیلیوں کے پردے ہلنا شروع ہوئے تو میری بیماری نے بھی انگڑائی لینا شروع کر دی۔ہوش و حواس ساتھ چھوڑ گئے۔دوسری طرف ہمارے سابق وزیراعظم‘ عالمی سیاست کی سب سے بڑی جنگ میں کود پڑے اور آثار یہ بتا رہے ہیں کہ وہ ریاستی طاقتوں کو ناقابل یقین شکست دے کر اپنی فتوحات کی فہرست میں اضافہ شروع کر دیں گے‘ لیکن اپنی خاندانی فتح کو ممکن بنانے کا معرکہ محترمہ کلثوم نواز نے سر کیا۔یہ دلچسپ کہانی پوری طرح صحت مند ہونے کے بعد قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا۔اس وقت دو کہانیاں پیش کر رہا ہوں۔ ایک بدلتا ہوا عالمی نظام اور ہمارے خطے میں ہونے والی وہ حیرت انگیز تبدیلیاں ‘جو اپنی اپنی بار ی پر رونما ہوں گی۔سابق وزیراعظم مدت سے دنیا کی امیر ترین شخصیتوں میں شامل ہونے کو بے تاب تھے۔ قدرت نے میاں صاحب کو پاکستان کی خدمت کرنے کے بہترین مواقع فراہم کئے ۔ ان میں کچھ مواقع دوسروںکے لئے بھی تھے۔لیکن ناکام وزیراعظم اور کامیاب رئیسِ اعظم کے ڈرامائی واقعات دیکھنے کے مواقع صرف ہمیں ہی نصیب ہوئے۔اس پر اسرار کہانی کا مصنف کون ہے؟ڈاکٹروں کی ٹیم؟ ہمارے سابق وزیراعظم؟ یاخاندان کی خاطر مثالی قربانیاں دینے والی عظیم خاتون محترمہ کلثوم نواز؟
مجھے نہیں معلوم کہ بیگم کلثوم کی اصل بیماری کیا تھی؟ لندن کے ہسپتال میں ان کے داخلے کی وجہ طبی تھی یا سیاسی۔جہاں تک محترم خاتون کا تعلق ہے‘انہیں وہی پتہ تھا جو ہم سب جانتے ہیں۔انہیں لندن کے ہسپتال میں داخل کرانے کا مقصد کیا تھا؟ اور دنیا کو کیا بتایا گیا؟ پہلے مرحلے میں جب اچانک بیگم کلثوم کی بیماری کا معاملہ سامنے آیا تو مریضہ سمیت کسی کو اصل بیماری کی خبر نہیں تھی۔ ڈاکٹروں کو بھی نہیں تھی۔جیسے جیسے پاکستان کے اندر سراغ رسانی کا ڈرامہ آگے بڑھتا رہا‘ اسی تناسب سے بیماری کی نوعیت بھی رنگ بدلتی رہی۔جس نے بھی یہ کہانی تخلیق کی‘اس کے ذہن کی داد دینا پڑتی ہے۔پاکستان میں تو کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ مقدمات کہاں سے شروع ہوئے؟ کس لئے ہوئے ہیں؟ اورجو علاج شروع کرایا گیا‘ وہ کس لئے ہوا ؟ ہمارے سابق وزیراعظم نے اعلیٰ عدلیہ کے سامنے تن تنہا بڑے بڑے وکیلوں کا جس طرح
سامنا کیا‘ اس کی مثال کسی بھی درجہ کا کوئی وکیل قائم نہیں کر سکا ۔ صرف وکیل کیا؟ بڑے بڑے قانونی دماغ بھی ان انتہائوں کو نہیں پہنچے ہوں گے‘ جن انتہائوں کو ہمارے ''عظیم وزیراعظم‘‘ نے دنیا کو پہنچ کر دکھایا بھی اور حیران بھی کیا۔میرا خیال ہے ہالی وڈ کے بہترین دماغ اس موضوع پر سکرین پلے لکھنا شروع کر چکے ہوں گے۔یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی فلم ساز اور ڈائریکٹر‘ اس فلم کو سچی کہانی قرار نہیں دے سکے گا۔ اسے یہی کہنا پڑے گا کہ اس فلم کی کہانی کسی ہمہ گیر دماغ نے سوچی ہو گی۔ ملک کے اعلیٰ ترین قانونی دماغوںنے اس کہانی کے ''حقائق‘‘کے اندر پوری طرح جھانک بھی لیا ہو گا؟ یا نہیں؟یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ ہارلے سٹریٹ کے مرکزی کردار کو کس طرح اختتام تک پہنچایا جائے گا؟سچی بات تو یہ ہے کہ کہانی ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ اس کے مرکزی کردار نے اپنی بہترین قانونی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔کہانی مکمل ہونے کے بعدیہ تخلیقی یا واقعاتی ثابت ہو گی؟مگر جیسے جیسے سکرین پلے کی بُنت کھلتی ہے‘ چھوٹی اور بڑی کہانیاں بیک وقت پر اسراریت کے پردے اٹھاتی ہیں۔اگر اس کہانی کو تخلیق کرنے والا عظیم ذہن ‘پاکستانی قوم کی مخلصانہ خدمت پر کمر بستہ ہوتا تو پاکستانی قوم ہی نہیں مسلم دنیا کی قسمت بھی بدل جاتی۔ مگر کیا کیا جائے؟یہ کہانی لکھی ہی دولت کے لئے گئی ہو گی۔