نواز شریف بھی کمال کے آدمی ہیں۔نہ آرام سے کسی کو کرسی پر بیٹھنے دیتے ہیں اور نہ خود بیٹھتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے کارکن کہتے ہیں عجیب لیڈر ہے۔ نہ خود کہیں بیٹھتے ہیں ۔ نہ کسی کو بیٹھنے دیتے ہیں۔ کرکٹ کھیلنے گئے‘ تو کریز پر نہیں ٹھہرے۔ سیاست میں آئے‘ تو کرسی پر نہیں رکے۔اسی لئے نوازشریف کو لوگ کہتے ہیں ''ترچھی کرسی والے‘‘۔کیا خوب مزاج پایاہے؟ جس کے ساتھ گئے‘اس کو کرسی پر نہ بیٹھنے دیا اور جو ساتھ آیا‘ اسے ''چِین ‘‘ میںنہ رہنے دیا۔ اب کچھ دنوں سے بہت ہی بے چین ہیں۔ نہ گھر میں کسی کو آرام سے رہنے دیا اور نہ خود سکون سے بیٹھتے ہیں۔ بچوں کوکسی ملک میں ادھر ادھر بھیجتے رہتے ہیں۔ سیاسی ساتھیوں کوٹرین کے ٹکٹ چیکر کی طرح کہیں رکنے نہیں دیتے۔اور اب قریباً ایک سال سے سیاحت کا شوق اپنا لیا ہے۔جتنے دورے وزارت اعلیٰ یا وزارت عظمیٰ کے دوران کئے ہیں‘ان سے زیادہ دورے ''بے روزگاری‘‘ کے زمانے میں کرتے رہتے ہیں۔لاہور کی پوچھو تو پتہ چلتا ہے ‘ لندن گئے ہیں۔ لندن کی پوچھو تو وسطی ایشیا کے کسی بھی ملک میں پہنچے رہتے ہیں اور ملک بھی ایسے ڈھونڈتے ہیں‘ جس کے ایئرپورٹ پر لینڈ کریں تو پہلے سرے پر جہاز اترتا ہے اور آخری سرے پر مسافر اترتے ہیں۔ سیاست میں آتے ہی ایسی پارٹی اختیا رکی‘ جس میں نہ خود رہے اور نہ کسی کو رہنے دیا۔ اللہ نے دولت بہت دی ہے‘ مگر اپنی طرح دولت کو بھی کہیں چین سے نہیں رہنے دیتے۔
پاکستان کا سرکاری بینک بھی ہمیشہ پریشانی میں رہتا ہے۔ چار مہینے خزانہ خالی رہتا ہے اور صرف چار مہینوںمیں قرض سے بھر لیا جاتا ہے۔ آج کل تو بے چارہ خزانہ منہ کھولے ہی بیٹھا رہتا ہے۔نہ پاکستان کا خزانہ بھرتا ہے‘ نہ فقیر کی جھولی۔
جب نوازشریف سیاست میں داخل ہوئے‘ تو خزانے میں برکت رہتی تھی اورسیاست میں بھی بڑی
رونقیں تھیں۔ ہر صوبے میںسیاسی جماعتیں۔ ہر شہر میں سیاسی جماعتیں۔ ہر قصبے میں سیاسی جماعتیں۔ یہاں تک کہ گلی گلی میں سیاسی جماعتیں ہوا کرتی تھیں۔ بڑی رونقیں تھیں۔اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ چوہدری انورعزیز جب بھی وزیر یا پارلیمنٹ کے ممبر بنتے تو مہمان ان کے گھر جانے سے ڈرتے۔ ان کے کسی بیڈروم میں مہمان تو کیا؟گھر والوں کو بھی سونے کی جگہ نہیں ملتی تھی۔ ایک بار مجھے بھی دعوت دی۔ میں رات کے پہلے ہی پہر پہنچ گیا۔ مشکل سے دروازہ کھولا۔ پائوں ڈرائنگ روم کے اندر رکھا تو پتہ نہیں کس کے سر سے ٹھکرایا؟ کس کی کمر سے الجھا؟ اور کس کے پیٹ پر گرا؟
چوہدری صاحب کے سیاسی فرزند ِ ارجمند نے پہلا سیاسی استاد پرویز مشرف ڈھونڈا اور آخری سیاسی استاد نوازشریف۔صاحبزادے نے اِدھر اُدھر کے تبرے بھیج کر مشکل سے آدھی وزارت لی۔ نوازشریف بڑے خوش تھے کہ بچے کو وزارت دے دی‘ لیکن اس کی تسلی نہ ہوئی۔ مچل گئے۔منانے کے لئے ہرکارے بھیجے۔پوری وزارت کی پینگ پر جھولا دیا۔ انہوں نے بڑے مزے میں جھولے لئے۔تھوڑے ہی دنوں بعد پتہ چلا کہ موصوف لمبی لمبی چھلانگیں لگانے لگے ہیں۔ جس کی ٹوپی پر ہاتھ گیا‘ اسی کو پنجا دے مارا۔اب انتظار میں ہیں کہ استاد گرامی نوازشریف کو اپنے لئے کرسی ملے تو ان کے ہاتھ کوئی ترچھی کرسی بھی لگ جائے۔ ان دنوں والد محترم فرزند ارجمند کے لئے‘ بڑھاپے میں الیکشن کھیلیں گے مگر یہ کھلونا نہ کبھی والد صاحب کو راس آیا اور نہ ہی فرزند ارجمند کو۔اس خاندان کی وزارتوں سے نہیں بنتی۔ استاد بھی ایسا ہی ملا جو اپنے گھر میں وزارت کو ٹکنے نہیںدیتا ہے۔گزشتہ روز دونوں باپ بیٹے گھر میں بیٹھے تبادلہ خیال کر رہے تھے۔
والد گرامی نے پوچھا کہ'' برخوردار!میں تو اب سیاست کرتے کرتے تھک گیا ہوں۔ سوئمنگ پول میں بھی کمر تک اترتا ہوں۔ ادھر تم ہو سرکار کے سامنے کہہ دیا کہ میرے والد نے بھی نیشنل اسمبلی کاالیکشن لڑنے کے لئے کاغذات داخل کر دئیے ہیں‘‘۔
پوچھا گیا'' آپ کے والد گرامی کو تیراکی کون سکھائے گا؟‘‘
''والد صاحب !میں نے آپ سے بہتر استاد چنا ہے‘‘۔
''وہ کون؟‘‘
''جسے دیکھتے ہی تمام ملکوں کے بھرے خزانے کھل جاتے ہیں‘‘۔
''میں پہچان گیا۔مجھے بھی اس کے ہاتھ لگے ہیں‘‘۔