اس مضمون میں نئے جغرافیائی امکانات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
''پراسپائیکٹ نائیزالی ژناسٹسی‘بیلارشین دارالحکومت منسک‘ کا یہ مین بلیوارڈ ہے‘ جو سات سال میں بہت کم تبدیل ہوا۔ سڑک کے دونوں اطراف بڑی تعداد میں وہی سوویت یونین کے زمانے کی بلند عمارتیں ‘ جن کے سامنے درخت اور پیدل چلنے والے بونے لگتے ہیں۔ صدارتی لائبریری کے سامنے لینن کا ایک دیو قامت مجسمہ‘ اب بھی موجود ہے‘ اور سوویت دور کی دوسری بہت سی نشانیاں بھی۔ یہ تاثر کسی قدر حقیقت سے ہٹ کر بھی ہے‘ کیونکہ بیلارس خاصا تبدیل ہو چکا ہے۔ 2014ء میں یوکرائن میں سر اٹھانے والے بحران نے منسک کو روس اور مغرب کے مابین پیدا ہونے والے تعطل میں‘ اپنے لئے ایک نیا کردار تلاش کرنے کی راہ دکھائی تھی۔ بیلارس اور مشرقی یورپ کی سرحد پر واقع دوسرے ممالک ‘اس تعطل کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کی کوششیں بھی کرتے رہے ہیں۔ 2011ء میں بیلارس کی حالت یہ تھی کہ مالیاتی کساد بازاری اپنے عروج پر تھی اور افراطِ زر تین ہندسوں کو چھونے لگا تھا۔ کیفے اور ریسٹورنٹس زیادہ تر خالی تھے اور اشیا کی قیمتیں کئی بار تبدیل کی جاتیں تاکہ نرخوں کو تیزی سے بڑھتے ہوئے افراطِ زر کے مطابق رکھا جا سکے۔ چھ سات سال کے بعد ‘اب بیلارس میں حالات خاصے بہتر نظر آتے ہیں۔ معیشت فروغ پذیر ہے۔ 2017ء میں اس کے بڑھنے کی شرح 2.7 فیصد تھی‘ جبکہ افراطِ زر 5 فیصد تک محدود ہو کر رہ گیا‘ کیونکہ ایک زیادہ مستحکم کرنسی متعارف کرائی گئی‘ ایک ڈالر کے دو روبل۔
بیلارس کی خارجہ پالیسی میں بہتر اور اچھی تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ 2011ء تک بیلارس سیاسی لحاظ سے مغرب سے مکمل طور پر کٹا ہوا اور واضح طور پر روس کے زیر اثر نظر آتا تھا۔2010ء میں بیلارس میں صدارتی الیکشن ہوئے تھے‘ جس میں طویل عرصے سے اس کرسی پر براجمان الیگزینڈر لوکاشنکو کو ایک بار پھر صدر منتخب کر لیا گیا تھا ۔ عوام کا کہنا تھا کہ الیکشن میں دھاندلی کرائی گئی؛ چنانچہ اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے‘ جن کو سختی سے دبانے کے اقدامات پر یورپی یونین اور امریکہ نے بیلارس کے ساتھ اپنے تعلقات محدود کر کے اس پر بہت سی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اس وقت روس‘ بیلارس کا واحد حامی تھا۔ حال ہی میں منسک نے ماسکو کی سربراہی میں کسٹم یونین میں شمولیت اختیار کی ہے۔ 2014ء میں اس وقت حالات میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہونے لگیں ‘ جب یوکرائن میں صورتحال دگرگوں ہو گئی‘ جس نے پورے ایشیا اور یورپ کو متاثر کیا۔ بیلارس کے صدر نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح مغرب کی مدد سے حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر‘ کریک ڈائون کرنے والے یوکرائن کے صدر کو اقتدار سے الگ کر دیا گیا؟صدر الیگزینڈر بخوبی آگاہ تھے کہ وہ بھی حکومت مخالف مظاہروں کو اسی طرح طاقت سے روکتے رہے اور خود کوحالات کے مطابق نہ ڈھالا ‘تو ان کا بھی یہی انجام ہو سکتا ہے۔ اسی سوچ کے تحت بیلارسی صدر نے روس سے قربت قائم رکھتے ہوئے ‘ مغرب سے دوری ختم کی اور یوکرائن کے معاملے میں دونوں کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنا شروع کیا۔ روس‘ یوکرائن اور یورپی یونین حکام کے ابتدائی مذاکرات ہوئے‘ جن کے نتیجے میں ایک معاہدہ طے پایا‘ جسے منسک پروٹوکول کا نام دیا گیا۔ اس سے بیلارس کو دو فوائد حاصل ہوئے۔ پہلا:یوکرائن کا تنازعہ بیلارس تک پھیلنے سے بچا لیا گیا ۔ دوسرا: منسک کو غیر جانبدارانہ سفارت کاری کے لئے ایک بہتر جگہ تصور کیا جانے لگا۔
اگرچہ منسک کی ثالثی کی وجہ سے یوکرائن کا تنازعہ تو مکمل طور پر حل نہ ہو سکا‘ کیونکہ اس جھگڑے کو شروع ہوئے چار سال ہو چکے ہیں‘ لیکن مشرقی یوکرائن میں جنگ اب بھی جاری ہے۔ اس ثالثی کا فائدہ یہ ہوا کہ الیگزینڈر نے اپنے ملک کے لئے ترقی کی نئی راہیں تلاش کر لیں۔ یورپی یونین اور امریکہ‘ دونوں نے بیلارس پر عائد پابندیاں ہٹا لیں اور اس ملک کو مغرب کے ساتھ محدود ‘لیکن اہمیت کے حامل سیاسی اور معاشی معاملات شروع کرنے کا موقع مل گیا ۔ بیلارس کے ایک ثالث کے طور پر ابھر کر سامنے آنا ‘منسک ڈائیلا گ فورم کے موقع پر سب سے نمایاں تھا۔ یہ ایک اوپن سالانہ کانفرنس ہے ‘ جس کا اہتمام منسک پروٹوکول پر دستخط ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد کیا گیا تھا۔ الیگزینڈرلیوکاشنکو نے بھی فورم میں انہی خیالات کا اظہار کیا کہ منسک مذاکرات کے لئے ایک نیوٹرل جگہ ہے۔ ان ساری تبدیلیوں اور ان سارے تغیرات کے باوجود بیلارس نے روس کے معاشی اور فوجی تعلقات قائم رکھے اور اس
دوران اس کے یورپی یونین کی طرف جھکائو کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے؛ تاہم بیلارسی صدر نے یہ حقیقت جان لی کہ کسی ایک فریق کی قیمت پر دوسرے فریق کے ساتھ تعلقات بڑھانا ملک کی مجموعی سٹریٹیجک پوزیشن کو کمزور کر سکتا ہے؛ چنانچہ اپنی خارجہ پالیسی میں تنوع پیدا کرتے ہوئے بیلارس نے حالیہ برسوں میں چین کے ساتھ اپنے سیاسی‘ معاشی اور فوجی تعلقات مضبوط بنائے ہیں‘ جو مشرقی یورپ میں ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر سامنے آیا ہے۔
بیلارسی قیادت نے اپنے ملک کو کتنا تبدیل کر لیا ہے؟ اور بیلاروس کی اس وقت کیا پوزیشن ہے؟ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘کیونکہ بیلارس یورپی سرحد پر بڑی طاقتوں میں گھرا ہوا ملک ہے اور یہی چیز اس کے لئے غیر مفید ہے۔ اس علاقے کے سبھی ممالک کے اپنے اپنے اور ایک دوسرے سے مختلف سٹرٹیجک مفادات ہیں اور منسک کو اسی چیز کو سمجھنا چاہئے۔ ضروری نہیں کہ بیلارس ہمیشہ یورپ اور روس میں پائے جانے والے اختلافات سے ہی فائدہ اٹھانے کا سوچے گا۔ مثال کے طور پر بیلارس نے یوکرائن پر روس اور یورپ کے اختلافات سے معاشی‘ سیاسی اور فوجی لحاظ سے فائدہ اٹھایا۔ یوکرائن کا مسئلہ کھڑا ہونے سے پہلے جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا‘ لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ حالات سدا ایک جیسے نہیں رہیں گے۔ یوکرائن اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔ یوکرائن‘ امریکہ سے دفاعی ساز و سامان خرید رہا ہے۔ یوکرائن کے طاقتور بننے کے بعد روس اور امریکہ کے معاملات پہلے جیسے نہیں رہیں گے۔ اس صورت میں بیلارس کا ثالث کا کردار اور اس سلسلے میں کوششیں کیا رنگ اختیار کر سکیں گی؟ پولینڈاور دوسری بالٹک ریاستیں ‘روس اور یورپ کے تعطل کو اپنے مفاد میں زیادہ سخت اور شدید کرنے کی خواہش مند ہیں۔
اگر ایسی کوئی بیس قائم ہو جاتی ہے‘ تو اس سے بیلارس کو دو حوالوں سے نقصان پہنچے گا۔ اول : اس کی یوکرائن اور روس کے مابین ثالثی کی حیثیت متاثر ہو گی۔ دوم: یہ کہ ملٹری بیس اس کے لئے مستقل خطرہ بن جائے گی‘پھر روس اور امریکہ کی مخاصمت بھی ختم ہونے والی نہیں ہے اور یہ حقیقت دنیا بھر میں کہیں بھی اتنی واضح نہیں‘ جتنی یورپ کے اس سرحدی علاقے میں جس میں بیلارس بھی واقع ہے؛ حتیٰ کہ بیلارس اگر ان دو عظیم طاقتوں میں ثالثی کراتا ہے‘ تو بھی جاری تعطل کے ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں اور یہ پیچیدگی بیلارس کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ یہ چاہے خود کو کتنا ہی تبدیل کیوں نہ کر لے؟ اسے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے دھارے میں ہی بہنا ہے‘‘۔