"NNC" (space) message & send to 7575

جدید طاقتیں اور مصنوعی ذہانتیں (آخری قسط)

''ممکن ہے امریکیوں نے یہ سوچا ہو کہ سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی ‘پوری دنیامیں پھیلی نظریاتی جنگوں کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ترقی اور وسعت کے معاملات امریکہ اور چین کے مابین‘ نئے نظریاتی میدانِ جنگ کا اہتمام کر رہے ہیں‘ جبکہ اس دوڑ میں مغرب کا چین کے استبدادانہ ڈیجیٹل اقدامات کے خلاف لبرل ڈیموکریسی کا نعرہ کہیں پس منظر میں جا چکا ہے۔ جیسا کہ نیورو سائینٹسٹ نکولس رائٹ نے اپنے ایک مضمون ''مصنوعی ذہانت کیسے گلوبل آرڈر کو نئی شکل دے گی؟‘‘ میں لکھا ہے کہ چین کا مصنوعی ذہانت کا پلان 2017ء بتاتا ہے کہ کس طرح کسی گروپ کی شناخت کا مکمل پتہ چلانا ؟اور اس کی بنیاد پر اس کے بارے میں پیش گوئی کر سکنے کی اہلیت حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت‘ سماجی تعمیر کے حوالے سے نئے مواقع پیدا کرتی ہے۔ اس ترقیاتی پروگرام میں مرکزی حیثیت ‘چین کے سوشل کریڈٹ سسٹم کو حاصل ہے ‘جو 2020ء تک مکمل طور پر کام کرنا شروع کر دے گا ۔ اس کے تحت کسی بھی شہری کی روزانہ کی سرگرمیوں کو سامنے رکھ کر ایک سکور مرتب کیا جا سکتا ہے ‘ جس کے ذریعے پھر یہ تعین کیا جا سکتا ہے کہ اس کے قرضہ حاصل کرنے کی اہلیت کتنی ہے؟ یا پھر اس کے بچے کن سکولوں میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں؟
مصنوعی ذہانت کے ذریعے چہرے کی شناخت اور نگرانی کے حوالے سے اکٹھے کئے گئے اعداد و شمار کو‘ کنٹرول کرنے کی صلاحیت پیدا کرناتاکہ سماجی طرز عمل کو منظم کیا جا سکے۔ رائٹ نے لکھا ہے کہ کیسے بیجنگ نے تھائی لینڈ اور ویت نام کو گریٹ فائروال (انٹرنیٹ کے حوالے سے سکیورٹی کا ایسا نظام‘ جس میں اس سافٹ ویر کو استعمال کرنے والوں کی معلومات ایک جگہ اکٹھی ہوتی رہتی ہیں) ماڈل برآمد کئے تھے تاکہ انٹرنیٹ کو بلاک کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ چین نے کڑی نگرانی کی ٹیکنالوجی ایران‘ روس‘ زمبابوے ‘ زیمبیا اور ملائیشیا کو سپلائی کی۔ اس سے نہ صرف چین کو امریکہ کی سرکردگی میں چلنے والے گلوبل آرڈر کا متبادل فراہم کرنے میں مدد ملی بلکہ چین کو ایک بڑے ڈیٹا پول تک رسائی بھی حاصل ہو گئی‘ جس سے اس کو پوری دنیا میں ٹیکنالوجی کے حوالے سے اپنی طاقت بڑھانے کا موقع میسر آیا۔یورپ اور روس بھی مصنوعی ذہانت کی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہنا چاہتے‘ چنانچہ وہ بھی اس شعبے میں اپنی مہارت بڑھانے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں‘ لیکن امریکہ اور چین اس معاملے میں جس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں‘ یورپ اور روس بالآخر اس رفتار کو پا نہیں سکیں گے۔ روسی صدر ولادی میر پوٹن نے جب گزشتہ سال روسی نوجوانوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ جو مصنوعی ذہانت پر حکمرانی کرے گا‘ وہی پوری دنیا کا حکمران ہو گا‘ تو ان کے اس بیان کو شہ سرخیوں کا موضوع بنایا گیا تھا‘ لیکن روس کچھ داخلی کو سامنے رکھا جائے تو پھر یہ کہنا پڑے گا کہ اسے بڑی احتیاط کے ساتھ یہ انتخاب کرنا ہو گا کہ اس نے اسے اپنا مال کہاں پھینکنا ہے؟ 
یورپ کی بات کی جائے ‘تو فرانس پورے یورپ کیلئے مصنوعی ذہانت کا ایک ایکو سسٹم بنانے کے سلسلے میں نہایت پُرعزم ہے اور اس حوالے سے اس نے کئی منصوبے بنا رکھے ہیں۔ دوسری جانب جرمنی اس اندیشے سے خوف زدہ ہے کہ اس کو صنعتی لحاظ سے جو ایک برتری حاصل ہے ‘جو امریکہ اور چین کی مسابقت کی وجہ سے ختم ہو جائے گی۔ یہ دونوں معاملات یورپی یونین میں دو بڑے فریکچرز ہیں‘ جن کے اثرات سے بچ نکلنا ممکن نہیں۔ یورپی یونین کا بوجھل ریگولیٹری ماحول اور بکھری ہوئی مارکیٹ‘ دونوں ٹیکنالوجی کے حوالے سے کسی بڑے آغاز کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہ حقیقت یونی کورن کمپنیوں کی قدر و قیمت اور عالمی مارکیٹ میں اس یونین کے کم شیئر سے بھی واضح ہوتی ہے۔ برطانیہ فی الوقت یورپی یونین کا حصہ ہے اور اسی کے پاس ٹیک ٹیلنٹ کا سب سے بڑاپول ہے‘ لیکن وہ یورپی یونین کے سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ بننے والے قواعد و ضوابط سے نجات پانے والا ہے کیونکہ اس نے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ماہرین بیش قدر عالمی سرمایہ ہیں۔ ایلیمنٹ اے آئی (Element AI) کی جانب سے امسال کی گئی‘ ایک ریسرچ کے مطابق‘ دنیا بھر میں اس وقت کم و بیش 22000 ڈاکٹریٹ لیول کے ریسرچرز موجود ہیں‘ لیکن ان میں سے محض 3000 ہی کام کی تلاش میں ہیں‘ اور لگ بھگ 5400 اپنا تحقیقی کام اے آئی کانفرنسز میں پیش کر رہے ہیں۔ امریکہ اور چین کے ٹیک جائنٹس مصنوعی ذہانت کے ماہرین کے اس چھوٹے سے پُول کو اپنے قبضے میں کرنے کیلئے کئی طرح کے 
اقدامات کر رہے ہیں‘ جیسے ان کو اپنے اندر ضم کر لینا‘ خرید لینا یا حاصل کر لینا‘ طاقت کے ذریعے ان کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرنا اور پیرس‘ مونٹریال اور تائیوان میں اس شعبے کی نئی لیب کھولنا۔ ایسا نہیں کہ یورپ کے پاس ان ٹیک جائنٹس کو خود سے دور رکھنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ کئی طریقے استعمال کئے جا سکتے ہیں‘ جیسے پرائیویسی قوانین‘ پالیسیوں پر ٹھیک طرح سے عمل نہ کرنے پر بھاری جرمانے‘ ڈیٹا لوکلائزیشن‘ ٹیکسیشن اور اس شعبے میں سرمایہ کاری پر پابندی یا رکاوٹیں۔ بلاک کی جانب سے جو جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشنز وضع کی گئی ہیں‘ اس کے نتیجے میں ذاتی اور نجی نوعیت کے ڈیٹا پر لوگوں کا کنٹرول بڑھ جائے گا‘ کیونکہ ان ریگولیشنز کے تحت ڈیٹا سٹوریج کا دورانیہ محدود کر دیا گیا ہے۔
ڈیٹا پرائیویسی اور مقابلہ بازی جیسے معاملات پر امریکہ کے تفکرات کسی بھی طور یورپ والوں سے کم نہیں ہیں‘ لیکن ان مسائل پر قابو پانے کے حوالے سے امریکہ کی سوچ یورپ سے مختلف ہے۔ آزادانہ اظہارِ خیال کے حوالے سے کسی فرد کے پرائیویسی حقوق کی پاس داری یورپ والوں کے لئے ترجیح ہیں‘ لیکن امریکہ کی نہیں۔ اسی لئے امریکہ اس کے بالکل برعکس چل رہا ہے۔ برسلز میں بھی مصنوعی ذہانت کے معاملے پر کچھ پیش رفت ہو رہی ہے‘ لیکن وہ اس حوالے سے بے لاگ رہنے کا عزم کئے ہوئے ہے‘ چاہے اس کیلئے بلاک (یورپی یونین) کے اندر ہی مسابقت کیوں نہ شروع ہو جائے۔ امریکہ اس معاملے میں محتاط ہے اور اس کی کوشش ہے کہ اپنے ٹیک چیمپئنز کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ اس طرح واشنگٹن سائبر پالیسی کے لئے بین الاقوامی قواعد و ضوابط وضع کرنے کے معاملے میں بیجنگ اور برسلز سے خاصا پیچھے ہے۔ مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والے بڑے ناموں کا دعویٰ ہے کہ آئی اے مختلف صنعتوں ‘ جیسے آٹو‘ انشورنس‘ اقتصادیات‘ تعمیرات اور سکیورٹی ‘ میں بڑے مالی حصول کا سبب بن سکتا ہے۔ پی ڈبلیو سی کی 2017ء کی رپورٹ کا تخمینہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت 2030ء میں پوری دنیا کی معیشت میں 15.7 ٹریلین ڈالر کا حصہ ڈالے گی‘ جس میں سے 6.6 ٹریلین ڈالر پیداوار میں اضافے کی مد میں حاصل ہو گا‘ جبکہ 9.1 ٹریلین ڈالر مصنوعات اور پیداوار کے استعمال میں اضافے کے نتیجے میں آئیں گے۔ تاہم ان ساری پیش رفتوں کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ کسی ملک کی ورک فورس کتنے بہتر انداز میں؟ کتنی تیزی سے ؟اور کتنا ان تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ چل سکتی ہے؟ مصنوعی ذہانت کا انقلاب دنیا میں کیا تبدیلیاں برپا کرے گا؟ یہ پتہ چلانے کے لئے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا؟‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں