امریکہ سپر پاور بننے کے لئے روزاول سے ہی ہاتھ پائوں مار رہا تھا۔ یہ پوزیشن اس نے کیا کیا جتن کر کے حاصل کی؟ زیر نظر مضمون اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے‘ جو قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش خدمت ہے۔
''تین دہائیاں پہلے کی بات ہے جب امریکہ کے پولیٹیکل سائنس دان اور کلنٹن انتظامیہ کے سابق افسر ‘جوزف نائے نے ایک نیا آئیڈیا پیش کیا تھا۔ اس نے اپنی اس سوچ یا نظرئیے کو سافٹ پاور کا نام دیا تھا۔ یہ ایک نکتہ نظر تھا جو یکدم مشہور ہو گیا اور سرد جنگ کے بعد کے زمانے کو بیان کرنے کیلئے استعمال ہونے لگا۔جوزف کا موقف تھا؛ اگرچہ امریکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے دور کی نسبت کمزور محسوس ہوتا نظر آتا ہے ‘ لیکن اس ملک میں اب بھی طاقت کا ایک بے مثال ذریعہ ہے‘ جو اسے نمبرون پوزیشن پر لا سکتا ہے۔ جوزف نائے نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق کرنے اور حالات و واقعات کو کنٹرول کرنے کے لئے‘ فوجی طاقت کے استعمال کے علاوہ بھی‘ امریکہ کے پاس ایک چیز موجود ہے۔جوزف نائے نے بتایا کہ دوسروں کو وہ اقدامات کرنے پر مجبور کرنے کے لئے جو وہ کبھی بھی نہ کریں‘ امریکہ اپنی سافٹ پاور‘ جو کہ ایک غیر تشدد آمیز قوت ہے‘ سے کام لے سکتا ہے تاکہ دنیا میں اپنی لیڈرشپ کی پوزیشن کو مستحکم اور مضبوط کیا جا سکے۔نظر آنے والی طاقت کو یقیناً آسانی سے ناپا جا سکتا ہے۔جیسے ہم گن سکتے ہیں کہ میزائلوں کی تعداد کتنی ہے؟ٹینک کتنے ہیں؟اور فوجیوں کی نفری کتنی ہے؟جیسا کہ سوویت لیڈر جوزف سٹالن کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ اس نے پوچھا تھا ''پوپ کے پاس کتنے ڈویژن فوج ہے؟‘‘ لیکن امریکہ کی سافٹ پاور کے بارے میں آپ کیا کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتنی ہے؟ جوزف نائے نے سافٹ پاور کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے: کلچرل‘ آئیڈلوجیکل اور انسٹی ٹیوشنل۔ پوری دنیا چاہے گی کہ مذکورہ تینوں شعبوں میں امریکہ کی ہم پلہ ہو جائے۔ جوزف کے مطابق ''اگر کوئی ملک اپنی طاقت ایسی بنا لے جو دوسروں کی نظروں میں جائز ہو تو پھر اسے اپنی خواہشوں کو عملی شکل دینے کے سلسلے میں کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ڈیموکریٹک پولیٹکس‘ فری مارکیٹ معیشت‘ اور بنیادی اقدار جیسے انسانی حقوق‘ دوسرے لفظوں میں لبرل ازم‘ امریکی سافٹ پاور کی بنیادیں ہیں‘‘۔
جوزف نائے کی جانب سے سافٹ پاور کا نظریہ پیش کئے جانے کے بعد‘ ربع صدی میں دنیا کے معاملات ‘اس کی پیش گوئیوں کے وسیع تر تناظر میں چلائے گئے۔ جب امریکہ نے سرد جنگ جیت لی تو امریکی لبرل ازم‘ دنیا بھر میں رواج پانے لگا اور اس کے راستے کی ایک بڑی رکاوٹ دور ہو گئی تھی۔ پھر ہر کوئی ووٹ کا حامی تھا۔ ہر کوئی جینز کا دلدادہ ہو گیا اور ہر کوئی آزادانہ اظہارِ خیال کا حامی بن گیا۔ تا آنکہ پولیٹیکل تھیورسٹ فرانسس فوکویاما نے ''تاریخ کا خاتمہ‘‘ کی اصطلاح متعارف کرا دی‘ جس کا مطلب یہ تھا کہ ساری دنیا اسی سیاسی اختتام (پولیٹیکل اینڈ پوائنٹ) کی طرف بڑھ رہی ہے‘ مغرب پہلے ہی جہاں پہنچ چکا ہے۔
1980ء سے 2010ء تک کی دہائیوں کے دوران ‘لبرل جمہوریتوں کی تعداد ‘ 100 سے بڑھ کر 150 کے لگ بھگ ہو گئی۔ وال سٹریٹ جرنل اور ہیری ٹیج فائونڈیشن کی جانب سے شائع کی گئی درجہ بندیوں کے مطابق‘ فری مارکیٹ کیپیٹلسٹ معیشتیں‘ جو 40 سے زیادہ تھیں‘ 100 کے قریب ہو گئیں۔ انسانی تاریخ میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اتنی بڑی تعداد میں ممالک نے پُرانا سیاسی اور معاشی نظام ترک کر کے نئے نظام کو اپنایا ہو۔بین الاقوامی تعلقات کے دائرے میںامریکہ نے ایسے بین الاقوامی ادارے قائم کئے اور پھر ان کو وسعت دی ‘ جو اس کے تنظیم نو (نیو آرڈر) کی حمایت اور ترویج کر سکیں‘ جیسے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن‘ ورلڈ بینک‘ اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف)۔یورپ میں بھی ایسے ہی معاملات ہوئے‘ جہاں یورپی یونین نے امریکہ جیسا ہی کردار ادا کیا۔ دنیا نے حیرت زدہ ہو کر دیکھا کہ انہی لبرل اقدار پر مشتمل حکمرانی کے اشتراکی اصول کے تحت‘ بہت سے یورپی ممالک نے اپنی ذاتی خود مختاری کو کم کر کے یورپی یونین کے نظام میں شمولت اختیار کر لی۔ برسلز کی حیثیت اس کے بالکل مطابق ہے‘ جو کچھ نائے نے کہا تھا: تمام رکن ممالک اور با حیثیت ریاستیں وہی کچھ چاہتی ہیں‘ جو مغربی یورپ کی بڑی طاقتوں کی خواہش ہے۔ درحقیت ایک مرحلے پر ‘ یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہر کوئی اسی کی خواہش رکھتا ہے جو کچھ مغربی یورپ چاہتا ہے‘ حتیٰ کہ ترکی بھی ‘ جو ایک بڑا مسلم ملک ہے۔ ایک بالکل مختلف کلچر اور اقدار کے ساتھ اور یوکرائن بھی‘ جس نے اس میں شمولیت اختیار کرنے کیلئے روس کے ساتھ جنگ کا خطرہ بھی مول لے لیا۔ یوں لگتا ہے کہ اکیسویں صدی امریکہ‘ یورپ سے تعلق رکھے گی اور ان کی عالمی سافٹ پاور سے‘ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ بہت سی چیزیں بہت سے معاملات غلط ہو گئے۔ مصنوعات گاہکوں کی خواہش کے مطابق نہ بن سکیں۔ 1970ء اور 1980ء کی ''تیسری لہر‘‘ کی جمہوریتوں سے لے کر مشرقی یورپ کی ان ریاستوں تک جو سرد جنگ کے بعد کے زمانے میں‘ تیزی سے یورپی یونین اور نیٹو کا حصہ بنیں اور حال ہی میں عرب بہار کے لئے موسم سازگار بنانے والے ممالک میں ‘ لبرل جمہوریت کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک تھیوری یہ پیش کی جاتی ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ نیو لبرل اکنامک انقلاب‘ جو سافٹ پاور کے اس زمانے کا حصہ اور پیداوار ہے‘ جن ریاستوں میں آیا‘ انہیں مضبوط بنانے کے بجائے‘ کمزور بنانے کا باعث بنا۔ جواب یہ ہے کہ مارکیٹ کبھی ایک متحد کرنے والی طاقت نہیں رہی۔ یہ ایک ایسا آئیڈیا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسے کوئی ایسی چیز سمجھنا‘ جس میں پیداوار‘ گڈ گورننس اور معاشرے کی بہتری کے امکانات روشن تر ہو جائیں‘ ایک واہمے کے سوا کچھ نہیں۔ جرمنی کے ماہرسماجیات‘ وولف گینگ سٹریک نے اس آئیڈیا کو زیادہ واضح کرکے پیش کیا ہے۔ انہوںنے خبردار کیا کہ سافٹ پاور‘ قومی سوسائٹیز اور بین الاقوامی تنظیموں کی موثر معاشی اور سیاسی گورننس قائم کرنے کی گنجائش کو پیچھے چھوڑتی جا رہی ہے۔ یعنی سافٹ پاور کی رفتار زیادہ اور بین الاقومی تنظیموں اور سوسائٹیوں کی استعدادِ کار کم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بڑھتے ہوئے قرضے‘ عدم مساوات کا بلند ہوتا ہوا گراف‘ اور غیر مستحکم پیداوار سیاسی اور معاشی حکمرانی کے عمومی بحران کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ بحران پھر سافٹ پاور کے میدان میں داخلی بغاوت کا باعث بنتے ہیں۔وولف سٹریک نے اسے ٹیکنگ بیک کنٹرول ‘ یعنی کنٹرول واپس لینے کا نام دیا ہے۔آپ یقیناً اسے ڈونلڈ ٹرمپ ‘ ہنگری کے وکٹر اوربان یا اٹلی کی فائیو سٹار موومنٹ اینڈ دی لیگ کا عروج قرار دیں گے۔تاحال ایسی بغاوتوں کا نتیجہ امریکہ‘ پولینڈ‘ اٹلی‘ ہنگری‘ چیک ری پبلک اور آسٹریا میں اینٹی لبرل حکمران اکثریتوں کی شکل میں نکلا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں بھی یہی صورتحال ہے۔ دوسری بات یہ کہ امریکہ اور یورپ میں وسعت ملنے کے بعد ‘ دونوں کا اپنی اپنی سافٹ پاور کے بارے میں اعتماد اتنا زیادہ ہو گیا تھا کہ انہوں نے باقی دنیا کو اپنے نظام میں تبدیل کرنے کی رفتار بے تحاشا بڑھا دی۔ جیسا کہ سرد جنگ کے بعد ‘ صدر کلنٹن کے پہلے دور میں نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے انتھونی لیک نے کہا تھاکہ مستقبل میں امریکہ کی آسودگی کا زیادہ تر انحصار‘ بیرو ن ملک جمہوریت کو فروغ دینے پر ہو گا۔ صدر جارج ڈبلیو بش نے جب امریکہ کو ایک مورل نیشن قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اخلاقی سچائی ‘ہر وقت اور ہر جگہ ایک ہی ہوتی ہے‘ تو یہ سافٹ پاور کو مصنوعی طاقت فراہم کرنے والا معاملہ تھا‘‘۔ (جاری)