''سنگاپور سے تعلق رکھنے والے دانشور اور سابق سفارت کار‘ کشور محبوبانی نے اپنی کتاب ''کیا مغرب نے اسے ضائع کر دیا؟‘‘ (Has the West Lost It?) نے ان سب چیزوں کو مغربی ملبہ قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ لفظ ہے جو حقائق کی درست ترجمانی کرتا ہے۔ کچھ ممالک کا سافٹ پاور کی طاقت اور اس کے قانونی ہونے پر اعتماد اس قدر زیادہ تھا کہ اس کے نام پر زبردست ہارڈ پاور مورچہ زن کی جاتی رہی۔ عراق اس کی سب سے نمایاں مثال ہے۔ یورپ کی مدد اور حمایت سے لیبیا میں مداخلت‘ یہ تو بالکل تازہ مثالیں ہیں۔ ان معاملات میں امریکہ اور یورپ‘ دونوں کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر سافٹ پاور کے ملبے نے اس واہمے کو جنم دیا کہ سافٹ پاور اپنے طور پر کسی نہ کسی حد تک موجود ہوتی ہے۔ لیکن نائے نے ایسا کوئی دعویٰ کبھی نہیں کیا۔ اصل بات یہ ہے کہ سافٹ پاور ہمیشہ ہارڈ پاور کی توسیع ہوتی ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ اگر امریکہ غریب ہو گیا ہوتا۔ لاچار ی اسے آ گھیرتی۔ جیسے دنیا بھر میں بہت سی نئی جمہوریتیں ہیں‘ لیکن وہ اپنی لبرل اقدار اور اداروں کو قائم اور برقرار رکھتا‘ تو کیا ہوتا؟ ایسی صورت میں چند ہی ممالک اس کی طرح بنے رہنے کی خواہش رکھتے۔ سافٹ پاور غالباً اپنے طور پر بھی موثر ہوتی ہے‘ یہ خیال اس غلط تصور کی وجہ سے پھیلا کہ ''صدام حسین کے بعد عراق خود بخود ایک لبرل جمہوریت بن جائے گا‘‘۔
یورپین پروجیکٹ بھی سافٹ پاور کے بارے میں غلط سمجھ بوجھ کی بنا پر قائم کیا گیا تھا۔کئی دہائیوں تک یورپ سافٹ پاور گیم میں واضح طور پر ایک فری رائیڈر تھا۔ امریکہ نے اس کی سکیورٹی کی ضمانت دی تھی اور اس کی معاشی بہتری کا انحصار بھی امریکہ کی نگرانی میں کام کرنے والے گلوبل اکنامک آرڈر پر تھا۔ اب امریکہ یورپ کو یہ سکیورٹی اور معیشت کی ضمانت دینے کو تیار نہیں اور اس کی وجہ ہارڈ پاور ہے تو اس کے باعث یورپ کو بہت سے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پانچواں مسئلہ یہ ہے کہ سافٹ پاور حقیقتاً بے حد زد پذیر ہے اور اس کا رخ بڑی آسانی سے موڑا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ایک دو دہائیوں میں یوں محسوس ہوتا تھا کہ سافٹ پاور‘ جس کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی مدد حاصل ہے‘ کو کبھی روکا نہیں جا سکے گا۔ یہی (سافٹ پاور) متعدد رنگین انقلابات کے پس منظر میں بھی تھی‘ جس نے حکومتوں کے تختے الٹ دئیے اور ریاستوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔ مغرب نے اس وقت بے حد خوشی و انبساط کا مظاہرہ کیا‘ جب فیس بک اور گوگل نے قاہرہ کے تحریر سکوائر اور کائیو میدان میں انقلاب کی آگ بھڑکائی‘ لیکن اسے اس وقت کوئی خوشی نہ ہوئی جب روس نے مغرب میں سیاسی بازی کو الٹنے کے لئے انہی چیزوں کا استعمال کیا۔ جب مغرب کو اپنی سافٹ پاور پر اعتماد تھا تو وہ اس سوچ کا پرچار کرتا تھا کہ معاشرہ جتنا کھلا ہو‘ اتنا ہی اچھا ہوتا ہے۔ لیکن اب مغربی میڈیا اور اس کے قانون ساز چیمبرز سے یہ آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ انٹرنیٹ کے کچھ حصوں پر سینسر لگایا جانا چاہئے۔ اب ہارڈ پاور ہر جگہ موجود ہے اور امریکہ اس کھیل میں سب سے بڑا کھلاڑی ہے: شمالی کوریا کے بارے میں آگ اور غصے سے بھرے ہوئے بیانات‘ ہر کسی کے ساتھ تجارتی جنگ‘ ورلڈ ٹریڈنگ آرگنائزیشن کو ناکامی سے دوچار کرنا‘ ان ملک کے اندر کام کرنے والی ان غیر ملکی کمپنیوں کو سزا دینا ‘جو کسی تیسرے ملک کے ساتھ بزنس کر رہی ہیں۔ اس طرح اس حوالے سے ایک خاصی لمبی فہرست بن جاتی ہے۔ یورپ تو اس کے بالکل سامنے ہے۔ کچھ سیاسی رہنما‘ جن میں جرمن چانسلر انجلا مرکل بھی شامل ہیں‘ ٹرمپ کے خلاف ٹھوس موقف اختیار کرنے کی خواہاں ہیں تو دوسرے‘ جن میں فرانسیسی صدر امانویل میکرون بھی شامل ہیں‘ چاہتے ہیں کہ کسی بھی طریقے سے امن قائم رہے۔ اور اس کھیل میں روس بھی تو شامل ہے۔ وہ بھی اپنی محدود ہی سہی لیکن جتنی بھی ہے‘ ہارڈ پاور کا استعمال کر رہا ہے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد کے دور میں اس نے اس حوالے سے خاصی بڑی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ یوکرائن سے کریمیا حاصل کر لیا اور حال ہی میں شام میں ماسکو کے طاقتور ایکشن نے وہاں خانہ جنگی کی صورتحال تبدیل کر کے رکھ دی ہے۔ کچھ چھوٹی ہارڈ پاورز بھی ہیں۔ ان میں سب سے اہم شمالی کوریا ہے۔کہا جاتا ہے کہ سافٹ پاور کے دور نے ہی ہارڈ پاور کے دور کو راستہ فراہم کیا... اور یہ بات بڑی خطرناک ہے۔ صدیوں جاری رہنے والی ہارڈ پاور پولیٹکس نے نسل انسانی کو اتنا نقصان پہنچایا ہے کہ جس کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ دور کیا جانا‘ صرف بیسویں صدی عیسوی میں ہارڈ پاور دو عظیم جنگوں کا باعث بنی اور اسی کی وجہ سے اقوام عالم کو ایک طویل سرد جنگ کا بھی سامنا کرنا پڑا‘ جس نے نسل انسانی کی بقا کو خطرات لاحق کر دئیے تھے۔ لیکن اس بار کچھ بہتر کی آرزو کی جانی چاہئے۔ اور اس سلسلے میں چین اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
تیس سال پہلے جوزف نائے کی جانب سے سافٹ پاور کے حوالے سے اپنے مضمون میں چین کا حوالہ نہ دینا بڑا عجیب لگتا ہے۔ سافٹ پاور کے اس زمانے میں چین ہی تو وہ واحد ملک تھا‘ جو اس شرط پر پورا اترتا تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد کے زمانے میں چین نے دوسرے تقریباً سبھی ممالک کے ساتھ گہرے ثقافتی اور اقتصادی تعلقات قائم کئے تھے۔ اس وقت بھی وہ تجارت کے حوالے سے پوری دنیا اور نسلِ انسانی کی پوری تاریخ کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے مغربی سافٹ پاور کا گاہک بننے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ چین ہی ہے جس نے نہایت منصوبہ بندی کے ساتھ مرکزی طور پر کنٹرول کی جانے والی اپنی معیشت کو ایک مارکیٹ اکانومی میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس کے باوجود اس نے معیشت کو ریاست سے بلند تر نہیں ہونے دیا۔ مغرب کی جانب سے جمہوریت‘ آزادی اور انسانی حقوق کی تعریفوں (definitions) کو بھی مسترد کر دیا اور اپنی سرزمین پر یک پارٹی نظام کو قائم رکھا اور اسے مضبوط اور مستحکم بناتا رہا۔اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ یہ کہ دوسرے کئی ممالک‘ جو اس عظیم تبدیلی سے گزرنے کے برعکس‘ چین اس تیزی اور اس بڑے پیمانے پر آگے بڑھا کہ جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ چین ایک غریب و پسماندہ زرعی معاشرے سے دنیا میں سب سے بڑی صنعتی معیشت میں تبدیل ہو گیا۔ اس عمل کے ذریعے اس نے 700 ملین افراد کو غربت کی دلدل سے نکالا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے گراہم الیسن نے اس معجزے کو ''غربت کا اہرام‘‘ قرار دیا۔ ورلڈ بینک کے مطابق چالیس سال پہلے دس میں سے نو چینی ''غربت کی انتہائی لکیر‘‘ سے بھی نیچے زندگی بسر کرتے تھے۔ آج صرف دس فیصد چینی خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ایسی کامیابیوں کو نئی طرز کی سافٹ پاور قرار دیا جا سکتا ہے۔
تقریباً دو دہائیاں قبل چین کے عظیم حکمت کار ‘زینگ پچیانگ نے چین کے لئے اپنی سوچ کے اظہار کیلئے ایک اصطلاح اچھالی تھی''پُرامن عروج‘‘ ۔ اگلے برسوں میں عروج کے اس عزم و ارادے نے بہت سے شکوک کو جنم دیا۔ اور الیسن نے خبردار کیا ہے کہ ان کے ارادے جو بھی ہوں‘ لیکن امریکہ اور چین ایک ایسے جال میں پھنس سکتے ہیں‘ جس میں ایک ابھرتی ہوئی پاور (چین) کی طاقت‘ امریکہ میں خوف کا باعث بن سکتی ہے‘ جس کا نتیجہ جنگ ہو سکتا ہے۔ اپنی کتاب Destined for War میں الیسن نے سولہ مثالیں پیش کی ہیں کہ کس طرح کسی طاقت کے ابھرنے کا نتیجہ جنگ کی صورت میں نکلتا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ چین کے پُرامن عروج کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ اس کی بڑی معیشت اور تجارت کا حجم اس ترقی کے گواہ ہیں۔ اس کی فوجی طاقت میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ اب چین سافٹ پاور پر زیادہ توجہ دے رہا ہے‘ حالانکہ باقی دنیا اس کے مخالف سمت میں جاتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ اس طرح جوزف نائے نے جو کچھ کہا‘ بہت کچھ اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ہارڈ پاور کے بغیر بھی سافٹ پاور کامیاب ہو سکتی ہے‘‘۔