بڑی بڑی خبروں کے جھرمٹ میں‘ ہے تو ایک چھوٹی سی خبر‘ لیکن آنے والے دنوں میں بحران کی شکل اختیارکر جائے گی۔اس پرمہر شرما نے لب کشائی کی ہے۔''گزشتہ ہفتے جب بھارت کے سب سے بڑے شیڈو بینکرز میں سے ایک نے ڈیفالٹس کے ایک پورے سلسلے کا اعتراف کیا تو بھارتی منڈیاں ایک بحران کے دھانے پر پہنچ گئیں۔ یہ 169 ماتحت اداروں پر مشتمل ایک ایسا انسٹی ٹیوٹ ہے‘ جو انفراسٹرکچر لیزنگ اینڈ فنانشیل سروسز کہلاتا ہے۔ شیڈو بینک کسی ایسی تنظیم یا کمپنی کو کہتے ہیںجو پیسے کا لین دین تو کرے لیکن وہ باقاعدہ بینک نہ ہو۔ اس خوف کے پیش نظر کہ سرمایہ کاری میں کمی کا طویل عمل شدت نہ اختیار کر جائے‘ بھارتی حکومت نے انڈیا کے کمپنی ایکٹ میں ایک نئی غیر معروف کلاز کا اضافہ کیا اور ایک نیا بورڈ تعینات کر دیا۔ معاملات کے قابو میں نہ رہنے کے حوالے سے کوتاہیوں کے انکشافات کا معاملہ‘ ایک سے زیادہ تنظیموں کے بارے میں ہے۔ انفراسٹرکچر لیزنگ اینڈ فنانشیل سروسز جیسی قرضے فراہم کرنے والی سب سے بڑی تنظیم کے زوال کے پس منظر میں ایک ناخوش گوار سچ چھپا ہے۔ بھارت کے پاس ایسا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ انفراسٹرکچر کے لئے ادائیگی کیسے کی جائے؟یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بھارتی حکومت نے اس سلسلے میں کوئی کوشش ہی نہیں کی۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد جلد ہی وزیر اعظم نریندر مودی کی انتظامیہ نے عوامی بہبود پر خرچ ہونے والے بجٹ کو دگنا کر دیا تھا‘ جیسے سڑکیں‘ اور بھارتی ریلوے۔
بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے محسوس کیا کہ ان کے پاس کچھ کرنے کی گنجائش محدود ہے۔ من موہن سنگھ کی سربراہی میں گزشتہ حکومت نے بھارت میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کی کوشش کی تھی‘ لیکن یہ کوشش نجی سیکٹر کی شراکت سے کی گئی۔ وہ ماڈل یہ تھا کہ کوئی کمپنی سبسیڈائزڈ وسائل استعمال کر کے ریاست کے لئے سڑک یا پاور پلانٹ تعمیر کرتی جبکہ حکومت اسے ریونیو میں سہولت فراہم کرتی تھی‘ یعنی اس سے کم ریونیو وصول کرتی تھی۔ لیکن یہ ماڈل من موہن سنگھ کی حکومت کی میعاد ختم ہونے سے پہلے ہی ناکام ہو گیا‘ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ انتخابات میں من موہن سنگھ کی پارٹی کو اگر شکست کا سامنا کرنا پڑا تو اس میں خاصا بڑا کردار اس ماڈل کا بھی تھا۔ اس ماڈل کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ اس مقصد کے لئے تیار کئے گئے مسودے ناقص تھے۔ ان پر عمل درآمد کے سلسلے میں اس سے بھی زیادہ ناقص حکمت عملی وضع کی گئی تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ حکومت اپنے پرائیویٹ سیکٹر کے پارٹنرز کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرمائے کا ایک خاصا بڑا حصہ‘ نامکمل منصوبوں میں پھنس کر رہ گیا‘ جس کے نتیجے میں وہ فائدہ حاصل نہ کیا جا سکا‘ جس کے لئے یہ ماڈل تیار کیا گیا تھا۔
من موہن سنگھ نے سب سے پہلے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا انتخاب کیا کیونکہ وہ محسوس کرتے تھے کہ بھارت کو اس وقت جتنے اور جیسے انفراسٹرکچر کی ضرورت تھی‘ حکومت ٹیکسوں سے وہ سارا بنانا برداشت نہیں کر سکتی‘ اس کے لئے ٹریلین ڈالرز کی ضرورت تھی‘ جبکہ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والا ریونیو زیادہ بہتر انداز میں بہتر مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا تھا‘ جیسے دیہی علاقوں کی ترقی و بہبود۔ مودی نے اپنے دورِ حکومت میں اس سے مختلف ماڈل کا انتخا ب کیا‘ اور اسی انتخاب نے اب اسے پریشان کر کے رکھ دیا ہے‘ کیونکہ اس کی وجہ سے دور دراز کے دیہی علاقوں تک بھی مایوسی پھیل چکی ہے۔ ابھی گزشتہ منگل ہی کو دلی کی پولیس نے احتجاج کرنے والے ان لاکھوں کسانوں کو منتشر کرنے کیلئے ان پر واٹر کینن چلائی اور ان کے خلاف آنسو گیس کا استعمال کیا۔ ان کسانوں کو وفاقی دارالحکومت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ اگر پبلک سیکٹر اپنے طور پر انفراسٹرکچر بنانے کا متحمل نہیں ہو سکتا اور یہ پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ کنٹریکٹس سائن نہیں کر سکتا تاکہ کوئی ٹھوس کام کیا جا سکے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے؟ ایسی صورت میں پرائیویٹ سیکٹر اگر ایسے پروجیکٹس کی طرف توجہ نہ دے اور قرضہ فراہم کرنے والی مارکیٹ کے‘ بڑے کھلاڑیوں سے ان پروجیکٹس کیلئے فنڈز حاصل نہ کرے تو کیا کرے؟ جو بصورتِ دیگر کسی پروجیکٹ میں سرمایہ لگانے سے اتنا ہی دور بھاگتے ہیں‘ جتنا لوگ طاعون سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انفراسٹرکچر لیزنگ اینڈ فنانشیل سروسز نے بھی ایسا ہی کچھ کرنے کی کوشش کی تھی۔ بد قسمتی سے یہ اس کہنہ مسئلے کا شکار ہو گئی‘ جس کا نام میچورٹی مس میچ ہے۔ اپنا بظاہر پبلک سیکٹر سٹیٹس‘یہ ایک پرائیویٹ کمپنی ہے‘ لیکن کچھ حلقوں کے خیال میں ایسا نہیں ہے‘ استعمال کرتے ہوئے اس نے ایک سال کی میعاد پر غیر محفوظ قرضے فراہم کرنا جاری رکھا۔ جب اس کے طویل المیعاد پروجیکٹس منطقی لحاظ سے مضبوط اور مستحکم ہو گئے تو یہ لیکویڈیٹی بحران کا شکار ہو گئی۔ لیکویڈیٹی کا مطلب یہ ہے کہ کسی تنظیم‘ ادارے یا فرد کے ہاتھ میں اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے کتنا سرمایہ موجود ہے؟
یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس مسئلے سے کس
طرح بچا جا سکتا ہے؟ جب کسی منصوبے میں قرضے کے لئے گروی رکھی گئی کسی ایک چیز کے حوالے سے معاملہ خراب ہوتا ہے یعنی گروی کی شرائط پوری نہیں ہو سکتیں تو یہ ایشو محض اس ایک منصوبے تک محدود نہیں رہتا بلکہ دوسرے منصوبوں تک پھیل جاتا ہے۔ 2008ء میں پیدا ہونے والے مالی بحران کے پس منظر میں بھی یہی عامل کارفرما تھا۔ بھارت کے حوالے سے اس بات کی یوں وضاحت کی جا سکتی ہے کہ وہاں جب ایک انفراسٹرکچر پروجیکٹ تاخیر کا شکار ہوتا ہے تو یہ تاخیر محض اس منصوبے یا پروجیکٹ تک محدود نہیں رہتی بلکہ دوسرے منصوبے بھی اس سے شدید طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ تو پھر ایک ایسا فنڈ قائم کرنے کے بارے میں کیا
خیال ہے؟ جس میں صرف طویل مدتی سرمایہ کاروں سے رقوم حاصل کی جا سکیں۔ بھارت کے نیشنل انویسٹمنٹ اینڈ انفراسٹرکچر فنڈ کے پس منظر میں یہی چھ سال پُرانا آئیڈیا کارفرما ہے‘ جس میں سنگاپور اور ابوظہبی کے آزاد ویلتھ فنڈز کلیدی سرمایہ کار ہیں۔ یہ خیال یا سوچ بری نہیں۔ لیکن اس سے صرف مسئلے کی شدت کو کم کیا جا سکے گا‘ مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں ہو گا۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یہ یقین دہانی کرانے کیلئے کہ ان کا سرمایہ ضائع نہیں جائے گا ‘بھارتی حکومت کو اس سلسلے میں زیادہ رقم خود فراہم کرنا پڑے گی‘ نیشنل انویسٹمنٹ اینڈ انفراسٹرکچر فنڈ کا 51 فیصد۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارت سرکار جتنے وسائل فراہم کر رہی ہے‘ ان کو سامنے رکھا جائے تو یہی چیز سامنے آئے گی کہ جو فنڈ قائم کرنے کا سوچا جائے گا وہ محدود ہو گا۔ بھارتی حکومت کا خیال ہے کہ نیشنل انویسٹمنٹ اینڈ انفراسٹرکچر فنڈ 6 بلین ڈالر سامنے لا سکے گا۔ یہ بالٹی میں پانی کا ایک قطرہ ڈالنے کے مترادف ہو گا۔ بھارتی وزیر خزانہ نے 2016ء میں یہ تخمینہ لگایا تھا کہ ملک میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے دس برسوں میں 1.5 ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہو گی۔ مشکل ہے کہ بھارتی حکومت اس کا آدھا بھی فراہم کر سکے۔ اس طرح یہ ایک لا ینحل مسئلہ لگتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اگر آپ ایک سادہ سی چیز پر یقین کر لیں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ قابل تعمیر انفراسٹرکچر پروجیکٹس وہ ہیں جو لمبی مدت میں اپنی لاگت پوری کر دیتے ہیں‘ یعنی ان سے اتنا فائدہ ہوتا ہے کہ ان پر خرچ کی گئی رقم واپس مل جاتی ہے۔ اگر یہی حقیقت ہے تو پھر سٹرکچر انویسٹمنٹ کا راستہ نکل آتا ہے تاکہ انہیں متشکل کیا جا سکے۔ حکومتوں کو اپنا پیسہ صرف نہیں کرنا چاہئے۔ انہیں راستے سے ہٹ جانا چاہئے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا چاہئے کہ کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جائے گا‘ جس سے منصوبوں کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہو۔ پرائیویٹ سیکٹر کو آگے لایا جانا چاہئے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرے‘‘۔