ایڈریانو بوسونی کا خطہ ارض پر رونما ہونے والی تبدیلیوں خصوصاً بالٹک ریاستوں کے حوالے سے لکھا گیا مضمون پیش خدمت ہے۔
'' روسی ایمپائر سے آزادی حاصل کئے لتھوانیا‘ لیٹویا اور ایسٹونیا کو سو سال ہو چکے ہیں۔ گزشتہ صدی ان ریاستوں کے لئے آسان نہیں گزری۔ آزادی کے فوراً بعد ان پر پھر سے قبضہ ہو گیا تھا۔ پہلے نازیوں نے قبضہ کئے رکھا اور پھر سوویت یونین نے۔ تینوں ممالک نے پانچ دہائیاں‘ سوویت یونین کے غلبے میں گزارے اور پھر1990-91ء میں انہیں دوبارہ آزادی ملی۔ گزشتہ چند برس غالباً ان ریاستوں کے لئے پچھلی پوری صدی میں بہترین ثابت ہوئے ‘لیکن ماضی کے بھوت‘ ان کی زندگیوں سے پوری طرح غائب نہیں ہوئے۔ یہ ریاستیں اپنے ارد گرد کی دنیا کو اب بھی بڑے تفکر کے ساتھ بے حد تشویش کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ بالٹک ممالک کے سرکاری حکام‘ دانشوروں‘ کاروباری حضرات اور تھنک ٹینک کے ماہرین سے بات کریں‘ تو ایک چیز سب میں یکساں نظرآتی ہے اور بار بار سامنے آتی ہے کہ روس کو اب بھی ایک خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ خوف تاریخ اور جغرافیہ کا نتیجہ ہے ‘کیونکہ مذکورہ تینوں ریاستیں چھوٹی ہیں اور ان پر حملہ کرنا آسان ہے۔ بالٹک سمندر کے ساتھ ان کی پوزیشن اور یورپی‘ سکینڈے نیوین اور روسی منڈیوں کے چوراہے پر واقع ہونے کی وجہ سے بھی یہ طالع آزمائوں کے لئے پُرکشش ہیں۔
اسی سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان ریاستوں نے کئی صدیاں غیر ملکی غلبے میں کیوں گزاریں؟ علاقائی ریاستیں جیسے جرمنی اور سویڈن بھی ان ریاستوں پر حملہ آور ہوتی رہیں‘ تاہم ان میں سے آخری قبضہ دوسری جنگ عظیم کے بعد‘ سوویت یونین کا ہی تھا۔ 1990ء کی دہائی کے اواخر میں اور 2000ء کے آغاز میں ان ریاستوں کو اس وقت قدرے ریلیف اور سکون نصیب ہوا جب یہ یورپی یونین اور نیٹو اتحاد کا حصہ تھیں اور روس نے پچھلی دہائیوں میں پہلی بار‘ ان ریاستوں کی طرف جارحانہ نظر نہ ڈالی‘ لیکن 2008ء میں روس اور جارجیا کی جنگ‘ خصوصی طور پر روس کی جانب سے کریمیا کو اپنے ساتھ ملا لینے اور 2014ء میں روس کی جانب سے یوکرائن میں علیحدگی پسندوں کی حمایت کرنا‘ بالٹک خطے میں روسی جارحیت کا خوف ایک بار پھر پھیل جانے کا باعث بنا۔ یہ خوف ضروری نہیں کہ مسلح حملے سے ہی پیدا ہوا ہو‘ دوسری نوعیت کی جارحیتیں بھی خوف پھیلانے کا باعث بن سکتی ہیں‘ جیسے سائبر حملہ‘ غلط اطلاعات پھیلانے کی مہم‘ اور مقامی منحرف گروپوںکی حمایت کرنا۔
حالیہ برسوں میں بالٹک ممالک نے اپنی فوجی طاقت بڑھانے پر اخراجات میں اضافہ کیا ہے اور توانائی کے حوالے سے روس پر اپنا انحصار کم کرنے کے بارے میں سوچ بچار کی ہے۔ اس کے باوجود تاحال یہ ممالک روس ہی سے قدرتی گیس کی ایک اچھی خاصی بڑی مقدار درآمد کر رہی ہیں اور اس کے ساتھ بڑے حجم میں تجارت بھی کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے بینکنگ سیکٹر میں خاصی بڑی مقدار میں روسی پیسہ موجود ہے اور ایستونیا اور لیٹویا میں نسلی روسیوں کی تعداد کل آبادی کا ایک چوتھائی ہے۔ اب چونکہ نیٹو کی ممبرشپ کی وجہ سے؛ چونکہ ان ممالک کو کسی غیر حملے کے حوالے سے تحفظ حاصل ہے ‘تو اس قدرے پُرسکون صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بالٹک ریاستوں کے رہنما معاشی‘ سیاسی اور سماجی جارحیت سے تحفظ کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
مستقبل کے بارے میں روس کے ارادے کیا ہیں؟ اس سوال کا تعلق بالٹک ریجن میں دوسری بڑی تشویش سے ہے۔ اٹلانٹک الائنس کا استحکام۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بطور صدر انتخاب نے اس خطے میں غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے یورپ کے کم تر سطح کے فوجی اخراجات پر تنقید کے بعد‘ اس غیر یقینی صورتحال کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور یہ خدشات بڑھے ہیں کہ وائٹ ہائوس‘ نیٹو کے تحت کسی جارحیت کی صورت میں مشترکہ دفاع کے اصول پر قائم بھی رہتا ہے یا نہیں؟
لیکن امریکہ کیا کہتا ہے؟ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ امریکہ کرنا کیا چاہتا ہے؟ اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ‘ بالٹک کی سکیورٹی میں کردار ادا کرتے رہنے کے اپنے عزم پر قائم ہے۔ گزشتہ ماہ کے آغاز میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ وائٹ ہائوس‘ پولینڈ میں ایک مستقل فوجی بیس بنانے پر غور کر رہا ہے۔ اگر ٹرمپ کے ظاہر کئے گئے اس منصوبے پر کبھی کام نہ بھی ہو تو اس کی جانب سے خطے کی حمایت جاری رکھنے کا ایک اشارہ ہے‘ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ان دنوں امریکہ اور یورپ کے تعلقات میں بڑی گرم جوشی ہے۔ جب سے ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا ہے‘ جرمنی اور امریکہ کے تعلقات میں گڑبڑ چل رہی ہے کیونکہ وائٹ ہائوس نے دو طرفہ تجارت میں جرمنی کے بڑے سرپلس کی ا علانیہ مذمت کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ جرمنی دفاع کے شعبے میں بہت کم رقوم خرچ کر رہا ہے۔ لفظوں کی اس جنگ نے بالٹک ریاستوں کو بڑی عجیب صورتحال سے دوچار کر دیا ہے‘ کیونکہ امریکہ ایک ایسے یورپی ملک کے ساتھ جھگڑ رہا ہے‘ جو کہ ان کا ایک بڑا سیاسی اور معاشی پارٹنر ہے۔ تاہم جرمنی کی خارجہ پالیسی میں جب روس کا نام آتا ہے تو یہ معاملہ ان ریاستوں کو بھی ابہام کا شکار کر دیتا ہے۔ جرمنی‘ یوکرائن کے تنازع کی وجہ سے روس پر لگنے والی پابندیوں کے حق میں نہیں ہے۔ علاوہ ازیں وہ متنازعہ نورڈ سٹریم2 پائپ لائن پروجیکٹ کا دفاع بھی کرتا ہے‘ جس میں بالٹک سمندر کے ذریعے روس سے قدرتی گیس جرمنی لائی جانی ہے اور یہ یوکرائن کو بائی پاس کرکے مکمل ہو گا یعنی یوکرائن کو ٹرانزٹ سٹیٹ کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔
کچھ اور بھی عوامل ہیں‘ جنہوں نے لتھوانیا‘ لیٹویا اور ایسٹونیا کی حکومتوں کے لئے تصویر کو زیادہ پیچیدہ بنا دیا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہو گا کہ بالٹک ریاستوں اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات بہت اچھے ہوں گے لیکن یہ بات بالٹک ریاستوں کے سبھی اتحادیوں کے بارے میں درست نہیں ہے۔ پولینڈ اور رومانیہ‘ روس کے معاملے میں مسائل کا شکار ہیں۔ ان کی بھی خواہش ہے کہ توانائی کے وسائل کے حوالے سے روس پر انحصار کم کیا جائے اور نیٹو کو اس علاقے میں زیادہ سے زیادہ مصروف رکھا جائے لیکن وارسا اور اور کم شدت کے ساتھ بچارسٹ‘ اس وقت یورپی کمیشن کے ساتھ تنائو کا شکار ہیں‘کیونکہ برسلز کا خیال ہے کہ ان ممالک میں قانون کے نفاذ کی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہے۔برسلز نے دھمکی دی ہے کہ جو ممالک اس کے اصول و ضوابط اور اقدار کا احترام نہیں کریں گے ‘ ان کے ترقیاتی فنڈ اور زرعی سبسڈی کم کر دی جائے گی۔پھر بریگزٹ کا معاملہ بھی اس خطے کے لئے تشویش کا ایک بڑا باعث ہے کیونکہ برطانیہ‘ روس کو کسی جارحیت سے باز رکھنے والا یورپی یونین کا ایک بڑا اتحادی ہے ۔
سب جانتے ہیں کہ برطانیہ صرف یورپی یونین سے الگ ہو رہا ہے ‘ نیٹو سے نہیںاور لندن اس خطے کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھے گا۔اس ساری صورتحال نے بالٹک ریاستوں کیلئے بہت سے نئے چیلنج پیدا کر دئیے ہیں اور بہت سے نئے مواقع بھی۔ اس کے نتیجے میں روس کی اس خطے میں مداخلت بڑھ سکتی ہے‘ لیکن یہ صورتحال امریکہ کو اس خطے پر زیادہ توجہ دینے پر مبذول کر سکتی ہے۔ اس طرح ان ریاستوں کو آزاد ہوئے تو ایک صدی گزر چکی ہے ‘لیکن ان کے خارجہ چیلنجز ‘کم و بیش اب بھی وہی اور ویسے ہی ہیں‘ جیسے 1918ء میں تھے‘‘۔