شا م کی بدلتی صورت حال پر اقوام عالم نے نظریں گاڑھی ہوئی ہیں۔ خصوصاً ترکی ‘شام‘ سعودی عرب اور امریکہ اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر نئے نئے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔''ترک صدر‘ طیب اردوان نے شام میں خوفناک خون ریزی روکنے کے لئے حال ہی میں ایک معاہدہ کیا ہے۔ اسے ''ادلب میں جنگ کی شدت سے نکلنے والے علاقے میں استحکام لانے کا میمورنڈم ‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ معاہدہ روس کے صدر‘ ولادی میر پوٹن کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اس کی بہت سی شقوں میں سے ایک یہ ہے کہ ادلب شہر کے گرد‘ ایک وسیع اور چوڑا بفر زون بنایا جائے گا۔ لیکن اس میں ایک اہم شق‘ جس کے تحت اردوان نے یہ وعدہ کیا ہے کہ ان تمام بنیاد پرست دہشت گرد گروپوں کو ادلب سے واپس بلا لیا جائے گا ‘ جن میں دس ہزار افراد پر مشتمل وہ گروپ بھی شامل ہے‘ جو پہلے القاعدہ کے ساتھ وابستہ تھا اور اب حیات التحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کے نام سے متحرک ہے۔ ادلب شہر اور اس کے نواح میں تیس لاکھ سے زیادہ افراد پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کو شام اور روس کے ایک بڑے اور تباہ کن حملے سے بچانے کے لئے اقدامات کرنا‘ بلا شبہ ان لوگوں کے لئے ایک بڑے ریلیف کا کام ہو گا جو وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ اردوان کی جانب سے یہ ایک غضب کی چال اور ایک بڑا ماہرانہ کارنامہ قرار دیا جا سکتا ہے‘ لیکن جب انہوں نے یہ وعدہ کیا کہ ماضی میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دس ہزار افراد کو غیر مسلح کیا جائے گا اور انہیں اس علاقے سے نکلنے کیلئے کھلا راستہ فراہم کیا جائے گا تو سوال یہ پید اہوتاہے کہ غیر مسلح کئے جانے والے گروہ کہاں جائیں گے؟
اشارے یہ ہیں کہ اردوان نے انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا قصد کیا ہے۔ وہ انہیں کرد جنگجوئوں کے خلاف استعمال کریں گے‘ جن کی پشت پناہی امریکہ کر رہا ہے۔ وہ فورسز ‘ جو پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائے پی جی) کے نام سے جانی جاتی ہیں‘ ترکی میں 'کردش پی کے کے‘ کے ساتھ قریبی طور پر منسلک ہیں۔ لیکن امریکہ نے اس انسلاک کو نظر انداز کرنے کا منصوبہ بنایا ہے‘ کیونکہ نام نہاد اسلامک سٹیٹ‘ جو خاصی حد تک شکست کھا چکی اور کمزور ہو چکی ہے‘ کے خلاف زمینی جنگ کیلئے امریکہ نے وائے جی پی پر انحصار کرنے کا قصد کیا ہے۔ مبینہ طور پر منصوبہ یہ ہے کہ اردوان سب سے پہلے ایچ ٹی ایس ٹروپس کو ترکی کی سرحد کے قریب لائیں گے اور پھر انہیں شام کے شہر افرین لایا جائے گا جس پر ترکی کا قبضہ ہے ۔ترکی کے وزیر خارجہ‘ میولوت چاوش کے مطابق اس سے اگلا مرحلہ یہ ہو گا کہ مانبج شہر پر سے وائے پی جی کا کنٹرول ختم کرایا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں امریکہ کے ساتھ مڈ بھیڑ ہونے کے اندیشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ جس کی فورسز وہاں موجود ہیں۔
فی الحال تو گھڑی کی ٹک ٹک جاری ہے۔ حیات التحریر الشام‘ ادلب کے ساٹھ فیصد حصے پر قابض ہے اور اس نے ابھی اس منصوبے کو منظور نہیں کیا ہے۔ اور عالمی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بعض حلقوں کی جانب سے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اردوان نے کیسے سوچ لیا کہ حیات التحریر الشام والے اس منصوبے کو تسلیم کر لیں گے؟ لیکن اردوان ایسے لیڈر نہیں ہیں‘ جنہوں نے یہ بوجھ اپنے کندھوں پر محتاط جمع تفریق کے بغیر ہی اٹھا لیا ہو۔اگر کسی جارحیت کے اندیشے کا جائزہ لیا جائے تو ترکی کے اس علاقے میں فوجی بھی موجود ہیں اور اسلحہ خانہ بھی۔ پھرنیشنل فرنٹ فار لبریشن(این ایل ایف) کے نام سے کلائنٹس بھی موجود ہیں اور فری سیرین آرمی (ایف ایس اے) کے ساتھ بھی ترکی کے تعلقات دوستانہ اور ٹھیک ہیں۔ حیات التحریر الشام کا کہنا ہے کہ وہ اس معاہدے کو تسلیم نہیں کرنے جا رہی‘ لیکن 12 گر و پو ں ‘ جن میں احرار الشام‘ نورالدین الزینکی اور کچھ دوسرے‘ جو مبینہ طور پر اخوان المسلمون کے ساتھ منسلک ہیں‘ نے ترکی کی چھتری تلے جمع ہونا قبول کر لیا ہے۔ ان کا عویٰ ہے کہ ان کی کل تعداد کم و بیش ایک لاکھ ہے۔ ترکی اور شام کی سرحد پر واقع دو بڑے شہر‘ افرین اور الباب ‘ ترکی کے زیر کنٹرول ہیں۔ اس طرح اس علاقے میں ترکی کی فوجی موجودگی برقرار ہے۔ علاوہ ازیں ترکی کی حکومت سے تنخواہ پانے والا وفادار گروپ ایف ایس اے بھی اس علاقے میں موجود ہے۔
جہاں کچھ آسانیاں اور سہولتیں ہیں‘ وہاں خاصی مشکلات بھی درپیش ہیں۔ 2011ء میں شام کا تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے اب تک ترکی‘ شمالی شام میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کیلئے بھاری رقوم خرچ کر چکا ہے۔ مقامی لوگوں اور مسلح گروہوں‘ دونوں کو ترکی کی سرکاری ایجنسیوں اور غیر سرکاری تنظیموں‘ جیسے ہومینیٹیرین ریلیف فائونڈیشن (آئی ایچ ایچ) کی جانب سے فیاضانہ ایڈ‘ سپلائیز‘ خوراک اور ہاٹ میلز ملتے رہے ہیں اور وہ ان عنایات کو بھولے نہیں ہیں۔ ترکی نے وہاں سکول بھی کھولے اور اپنی حمایت میں اضافہ کرنے کا سبب بننے والے سلیبس کے ساتھ اساتذہ کو بھی اس علاقے میں بھیجا۔ ترک امام بھی بھیجے گئے تاکہ وہ وہاں ترکی کی طویل مدتی موجودگی کی راہ ہموار کر سکیں۔ پھر ادلب کے بہت سے رہائشیوں کے رشتے دار ترکی میں رہتے ہیں اور یہ لوگ صدراردوان کے بارے میں اچھی سوچ کے حامل ہیں۔ اگرچہ حیات التحریر الشام سائن کی گئی اس یادداشت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ اس میمورنڈم کی پابند نہیں ہے‘ لیکن اصل نتیجہ کچھ پیچیدہ سا نکل سکتا ہے۔ حیات التحریر الشام کے دو گروپ چاہتے ہیں کہ القاعدہ سے تعلق ختم کرنے کے بعد بھی وہ آپس میں متحد رہیں۔ علاوہ ازیں کچھ لوگ القاعدہ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور کچھ ترکی اور اردوان کی طرف جھکائو رکھتے ہیں‘ کیونکہ انہیں ترکی کی جانب سے حمایت ملتی رہی ہے۔
یہ ساری صورتحال ترکی کے حق میں جاتی ہے اور ایسے حالات میں حیات التحریر الشام کے لئے یہ مشکل ہو جائے گا کہ ترکی کی بات کو ٹھکرا سکے۔ صدر اردوان کیلئے حیات التحریر الشام کے لیڈروں کی حمایت بالکل واضح ہے۔ مثلاً
عراق میں القاعدہ کے رہنما ‘ابو مصعب الزرقاوی کے روحانی اتالیق‘ ابو محمد المقدسی نے ایک بار کہا تھا کہ اردوان کے تحت حکومت میںرہنے والے ایک چھوٹی برائی ہیں‘ اور القاعدہ کے ارکان کو ترکی میں حاصل آزادی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اردوان کے لئے یہ حمایت2018ء کے الیکشن میں بھی واضح ہو کر سامنے آئی‘ جب بہت سی ایسی تنظیموں نے اپنے ہی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اردوان کی حمایت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا'' ہم جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے لیکن ہماری حمایت اردوان کیلئے ہے‘‘۔ ترکی اور دوسرے لفظوں میں صدر اردوان کا اصل مقصد یہ ہے کہ شام کے ساتھ ملنے والی اپنی سرحد پر معاملات کو اپنے قابو میں رکھاجائے تاکہ الگ ہو جانے والی کردش حکومت‘ یعنی ڈیموکریٹک یونین پارٹی‘ جو وائے پی جی کا سیاسی ونگ ہے‘ کو مزید پھیلائو سے روکا جا سکے ۔ ترکی کی یہ بھی خواہش ہے کہ کردستان ورکرز پارٹی کو خطے میں کسی فوجی طاقت کے ساتھ نہ ملنے دیا جائے۔ امریکیوں کے اس خطے سے انخلا کے بعد ترکی کی حکومت‘ کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائے پی جی) کے خلاف کارروائی کا ارداہ بھی رکھتی ہے۔ صدر اردوان نے یہ اندازہ لگا لیا ہے کہ ادلب میں لوگوں کو بچا کر وہ سنی مسلمانوں‘ جن میں شام کے بہت سے عرب شامل ہیں‘ حماس‘اپنے اخوان المسلمون حامیوں اور پوری دنیا میں ان سے وابستہ لوگوں اور گروہوں کو اپنی لیڈرشپ کی یقین دہانی کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان سارے معاملات کے باوجود یہ منصوبہ ٹیڑھا بھی پڑ سکتا ہے۔ اس میں کامیابی کی صورت میں ترکی کو اس خطے میں غلبہ حاصل ہو سکتا ہے۔ اردوان کی یہی خواہش ہے‘ اگرچہ اس کی ترکی کو بھاری قیمت بھی چکانا پڑ سکتی ہے‘‘۔