''گزشتہ ہفتے جب امریکہ‘ برطانیہ اور ڈچ حکام نے گرو (GRU)نامی روسی فوجی انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے کی گئی ‘ایک مہم کو بے نقاب کیا‘ تو وہ بہت سے ہتھکنڈے کھل کر سامنے آ گئے ‘ جو روس‘ مغرب کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ GRU کی اس مہم کا مقصد آرگنائزیشن فار دی پروہیبیشن آف کیمیکل ویپنز پر سائبر حملہ کرنا تھا۔ یہ تنظیم ہیگ میں قائم ہے اور یہ دنیا بھر میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر گہری نظر رکھتی ہے۔ یہ تنظیم سابق روسی جاسوس سرجئی سکری پال اور اس کی بیٹی کو کیمیکل ایجنٹ‘ نوویچوک کے ذریعے برطانیہ میں زہر دئیے جانے کے معاملے کی تحقیقات کررہی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حملہ جی آر یو کے کارندوں نے کیا تھا۔ جی آر یو مبینہ طور پر مشرقی یوکرائن کے علاقے میں ملائیشین ایئرلائن کی فلائٹ 17کو گرائے جانے سے متعلق فائلوں اور شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے سے متعلق معلومات تک رسائی حاصل کرنے کی خواہش مند تھی۔روس نے سائبر حملوں اور زہر خوارنی میں اپنی مہارت ثابت کی ہے‘ لیکن مذکورہ بالا واقعہ تو روس کی دوغلی جنگی حکمت عملی میں ایک نہایت سبک سی مثال ہے‘ کیونکہ روس تو مغرب اور مغرب کی جھکائو رکھنے والے ممالک میں قدامت پسند‘ انتہائی دائیں بازو کی اور اینٹی لبرل تحریکوں کی حمایت میں مصروف رہا ہے۔ اس کے علاوہ روس کی یہ بھی کوشش رہی کہ یورپ میں مہاجرین کے جمع ہونے کی وجہ سے‘ آبادی کے تناسب میں جو تبدیلی واقع ہوئی ہے اور یورپ پر اس کی وجہ سے جو دبائو بڑھا ہے‘ اسے اپنے حق میں استعمال کرے۔ اس کی خواہش ہے کہ یورپ کے اندر موجود تقسیم کو گہرا کیا جائے اور یورپ کے سرحدی علاقوں پر قائم ممالک کو یورپی یونین یا نیٹو میں شامل نہ ہونے دیا جائے۔
روس انتہائی دائیں بازو کی تحریکوں سے کس طرح فائدہ اٹھاتا ہے؟ اس کی مثال ایک چھوٹی سی ‘لیکن تزویراتی لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ریاست ‘مالڈووا میں ورلڈ کانگریس آف فیملیز کے عنوان سے حال ہی میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس سے لگایا جا سکتا ہے۔ پوری دنیا سے اینٹی لبرل‘ پرو لائف اور اینٹی ایل جی بی ٹی گروپوں کے اس سالانہ اجلاس میں قدامت پسندی کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد کو شریک کیا گیا۔ یہ قدامت پسند روس کے حکومتی حکام اور مذہبی رہنما تھے۔امریکہ سے مسیحی سکالر تھے اور یورپ اور دوسری جگہوں سے آنے والی سیاسی شخصیات تھیں۔ مالڈووا کے صدر ایگور ڈوڈون نے کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے نشان دہی کی کہ کس طرح وسیع پیمانے پر ہونے والی ہجرت ان کے ملک کیلئے خطرہ ہے؟ انہوں نے بتایا کہ مالڈووا کی نوجوان نسل‘ بچے پیدا کرنے کے حوالے سے متذبذب ہے اور بیرون ملک روزگار کے مواقع تلاش کرنے پر مجبور ہو رہی ہے۔ ڈوڈون نے بتایا کہ روزانہ اوسطاً 106 افراد مالڈووا چھوڑ کر جا رہے ہیں اور آئندہ 20برسوں میں ہم دس لاکھ باشندوں سے محروم ہو جا ئیں گے۔ دس لاکھ افراد اس ملک کے لئے بے حد اہمیت کے حامل ہیں‘ جس کی کل آبادی ہی چالیس لاکھ ہے۔ ڈوڈون کے مطابق اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ خاندان بڑھانے پر زور دیا جائے۔ ڈوڈون نے بڑے فخر کے ساتھ 2019ء کو مالڈووا میں فیملی کا سال قرار دیا۔
اقوام متحدہ کے مطابق مالڈووا ‘یقینی طور پر 2050ء تک اپنی بیس فیصد آبادی کھو دے گا‘ جس کی دو ہی بڑی وجوہ ہیں۔ کم شرح پیدائش‘ جو 1.25فی خاتون ہے(دنیا بھر میں کم ترین) اور ملک کی چھوٹی اور کم ترقی یافتہ معیشت ‘ جو بہت سے نوجوانوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ روس یا یورپی یونین کے ممالک میں قسمت آزمائی کریں۔مالڈووا اس خطے کا واحد ملک نہیں‘ جو اس مسئلے کا شکار ہے۔ وسطی اور مشرقی یورپ کے تقریباً سبھی ممالک آبادی کے حوالے سے ایسے ہی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں کہ شرح پیدائش بہت کم ہے اور ملک سے جانے والوں کی تعداد ‘ ملک میں آنے والوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ بلغاریہ اور لٹویا بھی ایسے ہی ممالک ہیں‘ جن کی آبادی 2050ء تک بیس فیصد کم ہو جائے گی‘ جبکہ وسطی اور مشرقی یورپ کے تقریباًسبھی ممالک اس عرصے میں اپنی اپنی دس تا بیس فیصد آبادیوں سے محروم ہو جائیں گے‘ حتیٰ کہ روس ‘ جو سوویت یونین کے زمانے میں غریب ممالک کے باشندوں کے لئے وہاں جا آباد ہونے کا ایک اچھا آپشن تھا‘ کی آبادی میں بھی 2050ء تک آٹھ فیصد کمی ہو جانے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہاہے۔
یہ کم ہوتی ہوئی آبادی ان ممالک کی معیشتوں پر دبائو بڑھانے کا باعث بن رہی ہے اور یہ مخصوص سیاسی حلقوں کو افراد خانہ کی تعداد بڑھانے اور ہم جنس پرستی کے خلاف متحرک ہونے کی طرف لا سکتی ہے۔ ورلڈ کانگریس آف فیملیز کا بھی یہی ایجنڈا تھا۔ یہ صورتحال روس کو موقع فراہم کر رہی ہے کہ وہ اپنے دوغلے اور دُہرے ہتھکنڈوں میں سے ایک پر عمل درآمد شروع کرے‘ یعنی ان ممالک میں قدامت پسندی اور اینٹی لبرل خیالات کو زیادہ سے زیادہ بڑھائے‘ تاکہ مغرب اور اس سے تعلق رکھنے والی ریاستوں میں بدامنی اور بے اطمینانی کو پھیلایا اور بڑھایا جا سکے۔ورلڈ کانگریس آف فیملیز؛ اگرچہ روسی انتظامات کے تحت چلنے والی تنظیم نہیں ہے ‘ لیکن یہ مبینہ طور پر قدامت پسندانہ سوچ رکھنے والے کچھ متمول روسیوں سے تعاون حاصل کرتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ تنظیم امریکی تاریخ دان اور مذہبی سکالر‘ الین کارلسن نے بنائی تھی۔ اس وقت اس کی باگ ڈور مسیحی ایکٹویسٹ برائن برائون کے ہاتھوں میں ہے۔ اس کانفرنس کے پلیٹ فارم ‘ جن کو ڈوڈون کی پوری طرح حمایت حاصل ہے‘ مکمل طور پر روسی مفادات کے لئے کردار ادا کرتے ہیں۔ مالڈووا ایک بارڈر لائن ریاست ہے اور روس اور یورپی یونین کے ایک دوسرے کے مخالف اثرات‘ پالیسیوں اور رویوں کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔ 2016ء میں ہونے والے مالڈووا کے صدارتی الیکشن کے دوران ڈوڈون‘ کریملن کے ساتھ قریبی طور پر رابطے میں رہا اور اکثر روس بھی جاتا رہا اور اپنی کامیابی کے بعد بھی ‘ڈوڈون نے قدامت پسندانہ جذبات کو فروغ دیا ‘جو روس کے مطابق اور مغرب کے خلاف ہیں۔ ڈوڈون پارلیمنٹ کی جانب سے یورپی یونین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت پر زور کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے‘ روس کے ساتھ قریبی سیاسی اور معاشی تعلقات قائم کرنے کے حق میں دلائل دیتے رہے ہیں۔ 2017ء میں ڈوڈون نے مالڈووا کو یوریشین اکنامک یونین میں آبزرور کا سٹیٹس دلایا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روس اور یورپی یونین کے حوالے سے ان کے نظریات کیا ہیں؟
روس‘ مغرب کے حامی ممالک میں بھی سیاسی تقسیم کے بیج بوتا رہا ہے‘ تاکہ نیٹو کو مزید وسعت اختیار کرنے سے روکا جا سکے اور اس اتحاد کو پارہ پارہ کیا جا سکے‘ جو روس کے خلاف پابندیوں پر عمل درآمد کے لئے یورپی یونین میں ہونا ضروری ہے۔ روس علاوہ ازیں بڑے یورپی ممالک میں امیگریشن اور آبادی کے تناسب جیسے معاملات پر مباحثے کروا کر بھی یورپ کے اتحاد کو انتشار میں تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف رہا ہے۔ زیادہ وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماسکو نے یورپ اور یوریشیا کے پورے علاقے میں اپنی ضرورت کی ایسی پارٹیوں کی شناخت اور ان کے استحصال کے بہت سے راستے تلاش کر لئے ہیں‘ جن کے مقاصد روس کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے‘‘۔ (یوجینی چائوسووسکی)