یاد نہیں کب سے بیماریوں سے برسرپیکارہوں‘بارہا مختلف حالات کی لپیٹ میں آیا‘بچ نکلنے کی کوششیں کیں ‘کرتا آرہا ہوں اور شایدکرتے ہوئے کسی نہ کسی موڑ پرسفر کا اختتام ہو جائے گا۔یہی ہوا کرتا ہے۔ہمارے ان گنت قافلوں کے سربراہ میاں عامر محمود سب کو اپنی قیادت میں مختلف قافلوں کی صورت منزل کی جانب لیے چلے جا رہے ہیں ۔وقت کے ساتھ ساتھ میری ناتوانی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔اپنے قافلہ سالار کے حوصلوں کے سہارے بڑھتا جا رہا ہوں۔رواں صدی کے دوران بہت سی راہوں اور سمتوں کی طرف ان گنت موڑکاٹتا رہا‘مگر اب نہ زیادہ موڑ باقی ہیں‘ نہ سفر کی ہمت۔
دنیا مستقبل قریب میںتبدیل ہونے کو ہے اور یہ تبدیلی غیر معمولی نوعیت کی ہوگی ۔ دنیا کا ہر ملک وقت گزرنے کیساتھ ساتھ بحرانوں سے نکلنے کا حل تلاش کرنے کی جستجو میں ہے۔
2008ء کا سال دنیا بھر میں وہ معاشی بحران لایا‘ جس کی لپیٹ میں دنیا بھرکے ممالک آئے۔ امریکہ میں مکانوں کی قیمتیںیکدم گرنے لگیں تھیں اور حالات اس نہج تک جا پہنچے کہ وہاں کے مکینوں کے پاس بینکوں کو دینے کے لیے سرمایہ نہیں تھا اور یوں بینک دیوالیہ ہوتے گئے ۔ امریکی سٹاک ایکسچینج 34 فیصد تک گر گئی تھی ۔اس وقت یہی کہا جانے لگا: یہ بحران 1930ء میں آئے معاشی بحران سے بڑا ہے ‘مگر وقت گزرنے کیساتھ نہ صرف امریکہ‘ بلکہ ہرملک اس پہ قابو پانے کی کوششوںمیں لگا رہا۔ اورخود کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے تمام ممالک اپنی مرکزی معاشی اور عسکری پالیسیوں میںنمایاں تبدیلیاں لانے پہ مجبورہوئے۔
جس طرح ہر ملک اپنے بحرانوں پرقابوپانے کے لیے برسرپیکارہے‘ اسطرح پاکستان بھی معاشی پیچیدگیوں بھرے بحران سے نبردآزما ہے ۔پاکستان خود کو معاشی طور پہ مضبوط کرنے کے لیے سی پیک جیسے منصوبے عمل میں لا رہاہے اور اپنی پالیسی تبدیل کر رہاہے۔ 2007ء میں روسی وزیراعظم نے پاکستان کا دورہ کیا اور یہ دورہ 38سال بعد کسی بھی روسی اعلیٰ قیادت کا اہم دورہ تھا ‘جس میں انتہائی اہم پیش رفت پاکستان اور روس کی عسکری قیادت اور مسلح افواج کو قریب لائی اور دوستی کے بندھن میں بندھنے کے لیے کارگر ثابت ہوئی ‘اس دورہ میں ہی پاکستان اور روس کے درمیان پہلی ــمشترکہ مشاورتی کمیٹی قائم ہوئی ۔اس کے بعد2007 ء سے 2011ء تک خاموشی رہی‘ مگر دنیا نے دیکھا2011ء میں روس نے کھل کر پاکستان میں نیٹو کے شمالی علاقہ جات میں آپریشن کے مخالفت کردی ‘جسکا جواز یہ بنایا گیا کہ ایسے حملے پاکستان کی سرحدی خود مختاری کیخلاف ہیں‘ جس کی روس مزمت کرتا ہے ۔
اس طرح مسلح افواج کو مستحکم اور ملکی دفاع مضبوط کرنے کے لیے کئی معاہدے دیگر ممالک کیساتھ ہوتے رہے ہیں ۔اب ذرا اپنے ہمسایہ ملک بھارت کی طرف دیکھیں تو وہ ہم سے معاشی‘زمینی اور آبادی کے اعتبار سے مستحکم ملک ہے ‘جو کہ اب اس برتری کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل میں واضع پالیسی لانے کو تیار ہے ‘جو ایک منظم جنگ کی صورت میں ہوگی ‘اس لیے وہ اپنے جنگی سازوسامان میں اندھا دھند سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ پاکستان بھی اپنے دفاع کو نا قابل تسخیر بنانے کے لیے اقدامات کر رہا ہے‘ مگر اس تیزی سے بدلتی دنیا میں پاکستان کے روایتی اور سب سے قابل اعتماد دوست بھی اس وقت داخلی اور خارجی محاظ پہ الجھے ہوئے ہیں۔چین جس نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا اب اس کے ساتھ بھی تعلقات میں پیچیدگیوں کے آثاردکھائی دینے لگ گئے ہیں ‘جو خطرہ کی گھنٹی ہے ۔ا س کا اندازہ ہمارے حکمرانوں کے دورہ چین سے آپ بخوبی لگا سکتے ہیں ۔ اس مشکل وقت میں ہمیںکوئی خاطرخواہ بیل آوٹ پیکیج نہیں مل سکا ‘بلکہ سی پیک منصوبے پے گزشتہ ایک سال سے رکے ہوئے فنڈ بھی ابھی تک جاری نہیں ہوئے۔ اس سے مستقبل میں کئی دشواریاں پیدا ہو سکتی ہیں‘ لہٰذا پاکستان کو اپنے بحرانوں پہ قابو پانے کے لیے چین کا اعتماد جیتنا لازم ہوگا اور مل کر پالیسیوں کا ازسر نوع جائزہ لینا ہوگا ۔
ایک بات کہنا پڑے گی کہ ہم جس خطے میں جینے کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ یہ سفر صرف ہمارا نہیں ہمارے ہمسائے جغرافیائی قافلوں کا بھی ہے۔ فی الحال انہی قافلوں پہ قناعت کریں گے‘ مگر ہمارے ملک ‘ہماری قوم اور ہمارے ہم سفر سب کو دنیا کی نئی راہیں اختیارکرنا ہوں گی ۔