"NNC" (space) message & send to 7575

کشمیر تا کرتار پور

آج واہگہ کے راستے بے شمار سکھ یاتری اپنی دیرینہ خواہش پوری کرنے‘ نوجوت سنگھ سدھو کی قیادت میںپاکستان پہنچے ۔ یہاں سکھوں کے مقدس مقامات موجود ہیں۔ بابا گرو نانک کا تعلق ضلع شیخوپورہ سے تھا ‘لیکن اب یہ مقام ضلع ننکانہ کا حصہ بن چکا ہے۔ کرتارپور راہداری اچانک معرض وجود میں آئی۔حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی اکثریت اس واقعے سے خوش نہیں۔سکھوں کے پسندیدہ لیڈر جو کہ متعدد مرتبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہو چکے ہیں‘ آج بھی وہ اسی صوبے کے سربراہ ہیں‘ ابتدا میں انہوں نے کرتارپور کے دورے کی خواہش کا اظہار کیا تھا‘ لیکن جلد ہی بھارتی حکومت کے مرکز اقتدار‘ سے اشار ہ ملا اوربھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ‘ کیپٹن امریندر سنگھ کو بلاجواز اور اچانک یہ فیصلہ تبدیل کرنا پڑا‘ جس سے ظاہر ہو گیا کہ بھارت میں سکھوںکا نہ سیاسی اثر ہے اور نہ اکھنڈبھارت میں کوئی اہمیت۔سوال ہے کہ اچانک یہ واقعہ کس طرح ظہور پذیر ہوا؟ نہ بھارت میں متعصب ہندوئوں نے سکھوں کی عقیدت و محبت سے کسی عبادت گاہ کا زیادہ ذکر ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی سکھوں کے لئے انہوں نے سرحد کے قریب واقع‘ کرتار پور بارڈر کھولنے کے لئے تگ و دو کی تھی۔یہاں سوال اٹھتا ہے کہ ہندو مہاسبھا کے دل میں سکھوں کے مقدس مقام کے لئے فوری عقیدت کیوں اٹھی؟ اور پھر چشم زدن میں جتنے بھارتی مندوب کرتار پور آنے کے لئے کمر باندھ چکے تھے اور پھر کمر ڈھیلی بھی کر دی۔یہ سب کیسے ہوا؟ بھارت سے نوجوت سنگھ سدھو اس کی وجہ بنے۔انہوں نے پاکستان پہنچ کر کہا کہ کوئی مجھے روک سکتاہے؟ جس طرح میں عمران خان کا فین ہو‘ ایسے پاکستان میں بھی بھارتیوں کے فین موجود ہوں گے۔فنکارایک دوسرے کو جوڑنے اور محبت کا سبب بنتے ہیں۔سابق بھارتی کرکٹر کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں سکھوں کیلئے کرتارپور کوریڈور دیوانگی سے کم نہیں۔ دونوں طرف سے جوڑنے والوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔یہ سب اچانک کیسے ہوا؟سکھ سادہ لوح لوگ ہیں۔متعصب ہندو کے من میں اچانک سکھوں کے گرو صاحب کاگورداوارہ کھولنے کے لئے محبت کیوں جاگی؟ مہاسبھا کا لیڈر اور وزیراعظم مودی نے اعلان کرتے ہی‘چپ کیوں سادھ لی؟یہی نہیں بھارتی وزیرخارجہ‘ سشما سوراج نے فوری طور پر گائوںکرتار پورمیں آنے کا اعلان کر دیا‘ بلکہ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ‘ راجہ امریندر سنگھ نے بھی اپنی دیرینہ محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ‘موضع کرتار پور میں حاضری دینے کا اعلان کر دیا۔حیرت کی بات ہے کہ راجہ امریندر سنگھ کے اس اعلان پر نہ توسکھ قوم نے خیر مقدم کیا اور نہ ہی خود راجہ صاحب نے بطور سکھ لیڈر‘اپنے مقدس مقام میں حاضرہونے کا چرچا کیا۔ ہو سکتا ہے ابھی تک پاکستانی گھرانے سے ان کا کوئی تعلق ہو؟
مجھے اس مذہبی یا سیاسی حاضری کے اچانک فیصلے پر تعجب ہوا؟ لگتا ہے کہ وزیراعظم ‘ نریندر مودی نے خوب سوچ سمجھ کر اس فیصلے کی تائید کی؛اگر آپ مقبوضہ کشمیر کے حالات پر نظر ڈالیں تو مہا سبھائی ذہن کے مسلم دشمن منصوبے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔بات یہیں تک نہیں‘ مہاسبھائی ذہن کے جغرافیائی عزائم بھی خطرناک ہیں۔موضع کرتار پور ‘ امرتسر اور مشرقی پنجاب میں سکھوں کی اکثریت موجود ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بڑی خاموشی سے دھیرے دھیرے ہندو مہا سبھا کے حامیوں کو بسایا جا رہا ہے۔ اسی فتنے کو مقبوضہ کشمیر کے اندر‘ آہستہ آہستہ پھیلایا جا رہا ہے۔کشمیر کے اس جنت نظیر حصے پر بھارت کی کسی بھی کمیونٹی کی رال ٹپک سکتی ہے۔ بھارتی قابض افواج مقامی کشمیریوں کو بری طرح سے روند رہی ہے اور اگر خطے کی با اثر مسلم کمیونٹی نے بے بس کشمیریوں کا ساتھ نہ دیا تو مودی بڑی بے رحمی سے غیر مسلم گروہوں کو کشمیر کے اس حصے پر پھیلا سکتا ہے‘ جس کے حسن و خوب صورتی کو دیکھ کر بھارت کی محروم آبادیاں‘ مقبوضہ کشمیر پرحملہ آور ہو سکتی ہیں۔ میں نے صرف سرسری سا جائزہ لیا ہے‘ لیکن جس بری طرح سے مودی کی رال کشمیر پر ٹپک رہی ہے‘ اس کا قیاس کر کے مہا سبھائیوں کی رال کا ٹپکنا خالی از اشتہا نہیں‘جس تیزی کے ساتھ چند لمحوں کے اندر اندر‘بھارتی حکمرانوں نے کشمیر کی بدلتی ہوئی صورت حال میں مہا سبھائیوں کی ٹانگ پھیلائی جا رہی ہے‘ برصغیر میں بھارت کی کسی بھی چال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ بطورِ خاص بھارت کے مقبوضہ کشمیر کو بھی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں