امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ ''وہ ان تمام انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر‘ جو میری نظر سے گزری ہیں‘ سعودی کراؤن پرنس اور سعودی صحافی جمال خشوگی کے ترکی میں سعودی قونصلیٹ میں قتل کے درمیان براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔انہوں نے مزیدبتایا کہ '' سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں کمی امریکہ اور ہمارے اتحادیوں کی قومی سلامتی کے لیے ایک بڑی غلطی ہو گی‘‘جبکہ صدر ٹرمپ پہلے ہی واضح طور سے کہہ چکے ہیں کہ ہر صورت میں ہمارے تعلقات سعودی عرب کے ساتھ ہی ہیں۔ وہ ایران کے خلاف لڑائی میں ہمارے اچھے اور انتہائی اہم اتحادی رہے ہیں۔ اپنے ملکی مفادات کو یقینی بنانے کے لیے امریکہ ''سعودی عرب کا پختہ ساتھ دے گا‘‘۔مگر ٹرمپ انتظامیہ نے سعودی نیو کلیئر کے حصول کے لیے روابط اور ان کی سرگرمیوں پر شاید آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔حال ہی میں ایک امریکی جریدے میں تجزیہ پیش کیا گیا‘جس میں ایک نئے بحران پیدا ہونے کا عندیہ دیاگیا۔جریدے کے مطابق سعودی شہزادے کے قریبی سکیورٹی کے اعلیٰ عہدیداروں نے غیر ملکی کمپنیوں کو‘ ایرانی سرکاری افسروں کے قتل کرنے کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے معاہدہ کیا ہے۔یہ منصوبہ جغرافیائی طور پربہت سے فوجی تنازعہ کو جنم دے سکتا ہے‘اس سے ان کی تھکی ہوئی سکیورٹی کے لیے بھی نئے مسائل پیدا کر سکتا ہے ۔سعودی شہزادہ ہمیشہ ہی سے شوقین مزاج اور وہمی طبیعت کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔اس کا جارحانہ رویہ ہمیشہ سعودی اداروں کے لیے تشویش کا باعث بنا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر سعودی اداروں کے حکام داخلی و خارجہ سکیورٹی کا کنٹرول اپنے پاس رکھیں اور تمام معاملات خود دیکھیں۔جمال خشوگی کا قتل ناقص آمریت کی بہترین مثال ہے۔اس وقت ضرورت یہ بھی ہے کہ سعودیہ کو مغرب سمیت دیگر دوست ممالک سے روابط بڑھا کر تعلقات کو مزید مستحکم کرنا چاہئے اور 2030ء تک کی طویل المیعاد معاشی پالیسیاںبنانی چاہئیں‘ جو ان کے لیے سود مند ثابت ہوں۔
سعودی عرب کی نیو کلیئر طاقت بننے کی پرانی خواہشیں اب کہیں دب سی گئیں ہیں ؟ ایک اعلیٰ سعودی افسر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ '' فی الوقت ایسا عمل ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہے‘ مگر اس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ایرا ن‘ سعودیہ سے نیوکلیئر پروگرام میں کہیں آگے ہے ؟یہ خبریں بھی زیر گردش ہیں کہ پاکستان وقت آنے پر سعودیہ کو نیوکلیئر ہتھیار استعمال کرنے کے لیے دے سکتا ہے؟چیزیں کافی پیچیدہ ہوتی جا رہی ہیں‘ کیونکہ 2015ء میں ایران نے ''مشترکہ جامع منصوبہ جات‘‘ جیسے معاہدے پر دستخط کیے ہیں ۔ایران قانونی طور پر خاص حد تک یورینیم کی افزودگی کر سکتا ہے ۔ واضح رہے کہ نومبر 2018ء کے آغازمیں سعودی شہزادے نے ریاض میں پہلے سعودی ریسرچ سنٹر کی بنیادرکھی۔یہ ابھی ابتدا ہے فی الحال کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔سعودیہ والے یہ بھی جانتے ہیں یہ سب اتنا آسان نہیں۔ ماہرین‘ٹیکنیشنز اور ریسرچ کا ہونا کس قدر اہمیت رکھتا ہے؟سعودیہ اس منصوبہ پر بے پناہ فنڈز لگا رہا ہے۔
پچھلی دہائی میں امریکہ سے 6 نیوکلیئر ری ایکٹر ز خریدے گئے جس میں سے دو کو واپس کردیا گیا۔ اس کے علاوہ کئی یورینیم افزودہ کرنے کے آلات بھی خریدے گئے‘ جو سعودی ایجنڈے اور پلان کو واضح کرتاہے۔ اوباما انتظامیہ پہلے ہی سعودیہ پر واضح کر چکی ہے کہ وہ معاہدوں کی پاسداری کرے اور ان پر سو فیصد عمل یقینی بنائے۔اسی طرز کا معاہدہ انہوں نے متحدہ عرب امارات سے 2009ء میں بھی کیا تھا‘ جس میں یہ شامل تھا کہ یہ ممالک یورینیم کی ایک خاص مقدار تک افزودگی عمل میں لا سکتے ہیں۔اسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ وزیرخارجہ پومپیو نے اسی پالیسی کو ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے واضح کیا۔انہوں نے انٹرویو میں کہا کہ ''بغیر شکوک وشبہات کے ایران نیوکلیئر بم بنا رہا ہے اور ہمیں اس کے خلاف یقینا کوئی نہ کوئی قدم اٹھانا چاہئے ‘‘ ۔
حال ہی میں جمال خشوگی کے قتل کے بعد‘ امریکی سینیٹ ممبران نے ٹرمپ انتظامیہ پر سعودیہ کو نیوکلیئر ری ایکٹر فروخت کرنے پر سوالات اٹھائے اور کہا کہ یہ اقدام اچھا ضرور ہے‘ مگر صرف اتنا کرنا کافی نہ ہوگا۔ امریکہ کی جانب سے یہ بات بھی سامنے آ رہی ہے کہ وہ سعودی شہزادے پر زور دے کہ وہ اس کی قیمتوں پر نظرثانی کرے۔ماضی کی جانب دیکھیں تو سابق عراقی صدر صدام حسین ‘لیبیا کے رہنما معمر قذافی اور شام کے صدر بشار الاسد‘ یہ تمام آمر بھی اسی طرز کی خواہشات رکھتے تھے ‘جنہیں پراسرار طور پر خاموش کرا دیا گیااور ان کے خواب چکنا چور ہوئے۔ وہ سب اپنی سکیورٹی کے نظام کو بہتر کر نے اور اس میں نیوکلیئر پرگرام لانا چاہتے تھے ‘ جبکہ لیبیا اور شام نیو کلیئر کا بنیادی ڈھانچہ بھی نہ رکھتے تھے ۔سعودیہ کے اندرونی مسائل اوربحران ان کی حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے؛اگر سعودی شہزادہ ان تمام بحرانوں پر قابو پا لیتا ہے‘ تب وہ ان خطرناک منصوبوں کا خطرہ مول لے سکتا ہے‘ جن میں سے ایک نیوکلیئر منصوبہ بھی ہے‘ جس کی مثال لیبیا‘عراق اور شام میں دیکھ چکے ہیں۔ان منصوبوں کے لیے ملکی سکیورٹی کو مستحکم‘لا متناہی فنڈ‘ملک میں پیدا ہونے والے بحرانوں پر قابو پانے کی استطاعت اور طویل المیعاد نیوکلیئر منصوبہ جات کا ہونا ضروری ہے۔سعودیہ بھی شرق اوسط میں نیوکلیئر کی دوڑ میں شامل ہوسکتا ہے‘ مگر اس بات سے منہ بھی نہیں موڑا جا سکتا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے سعودی حکومت کو نیوکلیئر پروگرام بڑھانے کے لیے منع کیا اور اس پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے‘‘۔
(ایک محقق کے تعاون سے)